دال ، کمال اور تھل کے رجال



شادا مصلی زیادہ دیر خوش نہ رہ سکا۔ مجمع نے اس کی گفتگو کا بالکل اثر نہ لیا۔لوگ سیفی صاحب کی طرف متوجہ رہے۔کالو ماچھی سیفی صاحب کا یار غار تھا،کہنے لگا ” شادا صاحب مچانا چاہتے ہیں ہل چل، بے قرار ہیں پل پل، بات کرنے کا ان کو آتا نہیں وَل، اے فخر تھل ،اب بتا بھی کوئی حل”۔ سیفی صاحب کچھ دیر خلا میں تکتے رہے، انتہائی مدبرانہ لہجے میں گیا ن بانٹنے لگے “اے دال کی اہمیت سے ناآشنا لوگو! دنیا علم و دانش کے لیے یونان اور اہل یونان کی سدا شکر گزار رہی ہے۔قدیم یونان میں فلسفیوں کی کہکشاں جگمگاتی تھی، رنگ و نور کے خزانے لوٹاتی تھی۔ ہمارا ہیرو بھی تاریخ کا روشن ستاراہے، بہت پیارا ہے۔دال پہ گزارا ہے، دال کھانا گوارا ہے، خالہ زاد بھائی شاہی ہرکارا ہے۔ایک دن شاہی بھائی نے فلسفی بھائی کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہوۓ کہا۔بھائی اگر تم بندہ شاہی ہوتے تو سدا دال نہ کھاتے۔ تیتر بٹیرے اڑاتے، ہرن کھاتے ، ہمیں بھی کھلاتے، کُھلا کماتے، مگر اب دال کا دور دورہ ہے۔ فلسفی بات سنتے رہے ، سر دھنتے رہے۔کہنے لگے ” بھائی تم ستر دن تو کیا دو ہفتے دال کھا کے دیکھو ، بادشاہ کی تو کیا کسی کی بھی نوکری کرنے کا تمہارا دل نہیں کرے گا، مزے کرو گے مزے”۔بندہ شاہی حیران ہوا پھر پریشان ہوا۔فلسفی چھا گیا، ہر کسی کے دل کو بھا گیا۔

Pl, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com

سیفی صاحب فرمانے لگے ” نئی نسل کو فلسفے اور دال کے فضائل سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔مسئلہ قحط الرجال حل کر سکتی ہے،چنے کی دال “۔تھوڑی دیر خاموش رہے، پھر فرمانے لگے ” اگر ڈگری ڈگری ہوتی ہے تو دال دال ہوتی ہے بھلے چنے کی ہو یا ماش کی ، بھلے کسی قماش کی۔بڑے بڑے مسئلے حل کر سکتی ہے”۔لوگ پوری توجہ سے گفتگو سن رہے تھے۔ شفقت صاحب زیر لب مسکرا رہے تھے۔سکول ٹیچر تھے۔ صاحب مطالعہ شخص تھے۔سیفی صاحب ایسے کسی بھی انسان کے بارے میں شدید محتاط رویہ کا مظاہرہ کرتے تھے جن کے نام سے ان کی جنس کا اندازہ نہیں ہوتا،شاداب، شہاب، تنویر وغیرہ وغیرہ لیکن شفقت صاحب کے وہ فین تھے۔ شفقت صاحب دھیمے لہجے میں کہنے لگے ” آپ بجا فرما رہے ہیں۔ سادگی بہت سے مسائل کا حل ہے، سادہ غذا میں بھی عظمت کا راز کا پنہا ں ہے۔ عظمت اللہ کی دین ہے۔ انگریزی محاورہ کہتا ہے “کچھ لوگ پیدائشی طور پر عظیم ہوتے ہیں، کچھ لوگ محنت کر کے عظیم بنتے ہیں اور عظمت کی دیوی کچھ لوگوں پر انتہائی مہربان ہوتی ہے”۔ایک مفکر کا کہنا ہے” عظیم لوگ اللہ تعالی کا انعام ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی جب کسی قوم سے راضی ہوتا ہے تو انعام کے طور پر انہیں عظیم لوگ عطا فرماتا ہے۔مسلمان دنیا میں آیا ہی اللہ کی اطاعت کے لیے ہے۔ پاک پیغمبر ﷺپر جو پہلی وحی اتری، اس کا پہلا لفظ “اقرا”تھا۔ بد قسمتی یہ ہوئی ، ہم نے اقرا پر توجہ نہیں دی اور ہمارے لوگ “اکراہ “کے راستے پر چل نکلے۔ واضح طور پر کہہ دیا گیا تھا کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔علم کی عظمت کے لیے اتنی دلیل ہی کافی ہے کہ پیغمبر خدا ﷺ بھی دعا مانگا کرتے تھے” اللہ تعالی میرے علم میں اضافہ فرما”۔ فرقان بتاتا ہے ” عالم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے۔اللہ تعالی کی سنت کبھی نہیں بدلتی”۔ سنت خدا وندی ہے کہ وہ اسی قوم کی حالت بدلتا ہے جو اپنی حالت بدلنے کی کوشش کرتی ہے۔غزوہ بدر میں کفار مکہ قیدی بنا لیے گئے۔ جو قیدی مسلمان افراد کو پڑھنا لکھنا سکھاتا تھا اسے آزاد کر دیا جاتا تھا۔علم ہی تمام مسائل کا حل ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو شیطان پر علم کی بدولت فوقیت دی۔اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ جب تمام دنیا یورپ سمیت جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی تو مسلمان دنیا بھر میں علم کے چراغ جلا رہے تھے۔ہم نے نہ صرف قدیم یونان کی دانش سے دنیا بھر کو روشناس کروایا بلکہ سائنس کی بنیاد رکھنے والے بھی مسلمان ہی تھے۔ابن رشد، الجزیری، بو علی سینا، الخوارزمی، جابر بن حیان، رازی، ابو ریحان البیرونی، الفارابی،ابن رشد، کندی، جابر بن حیان،ابن الہیشم،المسعودی، اور الزھراوی اور ایسے کئی نام ہیں جو مسلہ قحط الرجا ل کا بہترین حل ثابت ہوۓ۔ بنی نوع انسان ان کی ہمیشہ شکر گزار رہے گی۔ ابن سینا کی کتاب القانون، بصری کی کتاب الحیوان اور ابوالقاسم کی جراحی، سترہوی صدی عیسوی تک یورپ میں نصابی کتب کے طور پر پڑھائی جاتی رہیں۔ کاغذ کی صنعت کو اوج کمال پر پہنچانے والے اہل شاطبہ ہیں۔ چھپائی کی مشین اور مطابع کے پہلے موجد مسلمان سائنسدان ہیں۔ دوران خون کا جدید نظریہ ولیم ہاروے سے منسوب کیاجا تا ہے، حالانکہ اس سے بہت پہلے ابن ال نفیس نے نظریہ پیش کیا تھا۔۔ ابوالقاسم الزہراوی نے مثانہ کی پتھری نکالنے کے لیے جسم کا جو مقام آپریشن کے لیے تجویز کیا تھا آج تک اسی پر عمل ہو رہا ہے۔ محمد بن ذکریارازی دنیا کے پہلے طبیب جنہوں نےتپ دق (ٹی بی) کا علاج اورچیچک کا ٹیکہ ایجاد کیا تھا۔الجبرا خصوصی طور پر مسلمانوں کی ایجاد ہے۔ الجبرا کے بعد مسلمانوں کی ایک بڑی ایجاد علم مثلث ات (ٹرگنومیٹری) ہے۔ اندلس (اسپین) کے ایک مسلم (سائنسدان) عباس (ابوالقاسم) بن فرناس نے تین چیزیں ایجاد کرکے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ اول عینک کا شیشہ، دوم گھڑی ، سوم ایک مشین جو ہوا میں اڑ سکتی تھی۔ ابراہیم الفزازی، خلیفہ منصور کے عہد کا پہلا مسلمان سائنسدان انجینئر تھا۔ جس نے پہلا اصطرلاب تیار کیا تھا۔ ابن سینا کے استاد ابوالحسن نے پہلی دوربین ایجاد کی تھی۔ حسن الزاح نے راکٹ سازی کی طرف توجہ دی اور اس میں تارپیڈو کا اضافہ کیا۔ مسلمانوں کی دیگر صنعتی ایجادات میں بارود، قطب نما، زیتون کا تیل، عرق گلاب، خوشبوئیں، عطر سازی،ا دویہ سازی، معدنی وسائل میں ترقی، پارچہ بافی، صابن سازی، شیشہ سازی اور آلات حرب شامل ہیں۔ میرا خیال ہے عظمت کا راستہ دال اور دلائل دونوں کا محتاج ہے”۔شفقت صاحب خاموش ہوۓ تو ڈیرہ تالیوں سے گونج اٹھا۔ تالیاں بجانے میں پہلا نمبر سیفی صاحب کا تھا ۔ آگے بڑھے، شفقت صاحب کو گلے لگایا پھر شادے مصلی کو جپھی ڈالی۔ کہنے لگے ” آپ غلط سمجھے ،وہ دن گئے جب رقبے پر صرف چنے کی فصل اگتی تھی ، اب سولر لگا چکا ہوں، تمام رقبہ قابل کاشت بنا چکا ہوں۔اپنی غربت مکا چکا ہوں ۔ انشااللہ! اہل علاقہ کی بھی بھرپور مدد کروں گا۔ آج مجھے یقین ہو گیا ہے کہ قحط الرجال تھل کا مسئلہ نہیں”۔ ؎

دِگرگُوں ہے جہاں، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی
دل ہر ذرّہ میں غوغائے رستاخیز ہے ساقی
متاعِ دین و دانش لُٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خُوں‌ریز ہے ساقی
وہی دیرینہ بیماری، وہی نا محکمی دل کی
علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی
حرم کے دل میں سوزِ آرزو پیدا نہیں ہوتا
کہ پیدائی تری اب تک حجاب آمیز ہے ساقی
نہ اُٹھّا پھر کوئی رومیؔ عجم کے لالہ‌زاروں سے
وہی آب و گِلِ ایراں، وہی تبریز ہے ساقی
نہیں ہے نا اُمید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بہت زرخیز ہے ساقی
فقیرِ راہ کو بخشے گئے اسرارِ سُلطانی
بَہا میری نوا کی دولتِ پرویز ہے ساقی
(تمام شد۔۔۔)

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos