
(گزشتہ سے پیوستہ)
محترمہ سکینہ سفینہ سیتی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ہمارے قارئین بھی ان سے بخوبی واقف ہیں۔ جن لوگوں نے ہمارا کالم “سالی اور قحط سالی” پڑھ رکھا ہے، محترمہ سکینہ سفینہ سیتی کی علمیت بھی ان پر آشکار ہے۔ آج کے کالم کا عنوان “داماد اور فساد” ان کے مشہور زمانہ مقالے ” بر صغیر میں صنف نازک کی شخصیت سازی میں زیور، دیور، تیور اور فیور کا کردار” کے ایک باب سے لیا گیا ہے۔ نئے پڑھنے والوں کے لیے محترمہ کا تعارف محترمہ کی زبانی۔”ضلع قصور سے تعلق ہونے کے باوجود میں قصور کی ہر عورت کی طرح بے قصور ہوں۔دنیا کی ہر عورت بھلے وہ دنیا پور میں پیدا ہو یا چونیاں میں، اوکاڑہ کی رہائشی ہو یا چیچہ وطنی کی، حب الوطنی کی جیتی جاگتی مثال ہوتی ہے”۔ خاتون بھلے شیخو پورہ سے ہو یا بیگم کوٹ سے، بیگم بننے کے باوجود بھی بے قصور ہوتی ہے۔صنف نازک کا تعلق چنیوٹ سے ہو یا شور کوٹ سے ، جھنگ سے ہو یا پتوکی سے،سب کو پتہ ہے کہ ہمیشہ مظلوم ہوتی ہے۔ ہمارے مرد قصوروار ہیں یا نہیں، یہ فیصلہ میں تاریخ پر چھوڑتی ہوں”۔فیصلہ انہوں نے کس تاریخ پر چھوڑا ہے؟ ایک ، دو ، تین ، چار ، پانچ، چھ ، سات ،آٹھ ، اٹھارہ، پچیس یا پھر اکتیس ،یہ بتانا انہوں نے مناسب نہیں سمجھا۔وجہ وہ خود بہتر جانتی ہیں۔ صد شکر کہ وہ زندہ ہیں، تابندہ ہیں۔انکی تخلیقات منظر عام پر آ رہی ہیں۔امید ہے وہ جلد ہی اس راز سے بھی پردہ اٹھائیں گی۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔ان کا دعوی ہے “عورت کا بنیادی قصور فقط اتنا ہے کہ وہ درد دل کی دولت سے مالا مال ہوتی ہے۔ ہر عورت بنیادی طور پر اپنی ممتا سے مجبور ہوتی ہے ۔اللہ تعالی نے اپنی رحمت کے لیے ماں کی مثال دی ہے۔ عورت کا واحد جرم اس کا رحم دل ہونا ہے”۔ محترمہ کے خیالات عالیہ سے ہم اپنے قارئین کو آئندہ آنے والے کالمز میں بھی آگاہ کرتے رہیں گے۔ فرماتی ہیں”پڑھنے والے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ جب داماد لکھ دیا تھا تو فساد لکھنے کی کیا ضرورت تھی”؟محترمہ نے وضاحت کی ہے” ابھی ہمارا نظام تعلیم عوام کو اتنا شعور نہیں دیتا کہ وہ سمجھ سکیں کہ داماد اور فساد ایک ہی چیز کے دو نام ہیں”۔ غالب جانتے تھے کہ زندگی اور غم ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔موت سے پہلے زندگی اور غم سے چھٹکارہ ممکن نہیں۔موت سے پہلے داماد اور فساد سے نجات ممکن نہیں “۔مزید لکھتی ہیں ” صرف زور بیان کے لیے داماد اور فساد الگ الگ لکھ دیا ہے ورنہ پڑھنے والے داماد اور فساد کو اکٹھا بھی پڑھ سکتے ہیں۔ زندگی سے سواد ختم کرنا ہو تو داماد لے آنا چاہیے۔ گھر داماد ہو یا بے گھر داماد، بچی کے والدین کے لیے اکثر اوقات فساد ہی ثابت ہوتا ہے۔ داماد کے ہم قافیہ الفاظ برباد، فساد، تضاد، اس حقیقت کے غماز ہیں کہ داماد کوئی اچھی چیز نہیں۔ پنجابی میں داماد کو جوائی کہا جاتا ہے محترمہ اس کی وجہ یہ بتاتی ہیں کہ کھلے عام کسی انسان کو رسوائی کہنا پنجابی شرفاء کا شیوہ نہیں۔
اہل علم و دانش جانتے ہیں کہ داماد ہی فساد ہے “۔ بیٹی رحمت اور داماد زحمت۔ مردوں کے سسرال کے بابت لطیفے فقط اپنی خفت مٹانے کے لیے ہے۔ رواج ہے “چور بھی کہے چور چور”۔ سو بہواتنی خطرناک نہیں ہوتیں جتنا اکیلا داماد ہوتا ہے۔ داماد سے کبھی خیر کی توقع نہیں کی جاتی۔ داماد ہوتا ہی اسی لیے ہے کہ کہیں کوئی گھرانہ شاد آباد نہ رہ سکے۔ آج تک داماد سے کس نے سکھ پایا ہے؟ بھلے داماد بھانجا ہے، بھتیجا ہے، بھلے ہمسایہ ہے؟ محترمہ یہ اہم سوال اٹھاتی ہیں اور پھر خود ہی اس کا جواب دیتی ہیں:-؎
جہاں میں نہ اگر داماد ہوتا
کہیں پر بھی نہ فساد ہوتا
نہ کائنات میں تضاد ہوتا
ہر شخص شاد ہوتا، آباد ہوتا
اگر داماد کی شخصیت میں اتنے تضاد نہ ہوں تو ہمارے معاشرے میں نہ جہیز کی لعنت ہو اور نہ ہی لڑکیاں بن بیاہی رہ جائیں۔نہ ہی کوئی بچی گیس سلنڈر پھٹنے سے مرے۔ آج کل کے داماد جیسے گل کھلا رہے ہیں، بیٹی بن بیاہی ہی ا چھی۔ بعض داماد نرے ٹر ٹر ہوتے ہیں تو بعض داماد بالکل خر اور خر دماغ:۔؎
انسان تب تک ہی ہے شاد آباد
جب تک نہیں اس کا کوئی داماد
محترمہ نے اپنے مضمون میں داماد کی بابت عوامی راۓ جاننے کیلیے انتہائی جامع سروے کیا ہے۔ لوگوں کے خیالات نثر میں بھی لکھے ہیں اور منظوم پیراۓ میں بھی۔اک بزرگ جوڑے کے خیالات کچھ یوں بیان کیے ہیں
جس جس کو بخشا شرف دامادی
وہ لے کے آیا بربادی، بربادی
شکر ہے گھڑیال یہ کرتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹا دی
محترمہ نے انتہائی خطرناک نتائج اخذ کرتے ہوۓ لکھا ہے”لوگ بڑھاپے میں اس لیے جان سے جاتے ہیں کہ دامادوں کے کرتوتوں کی بدولت ان کا زندہ رہنے کو دل نہیں کرتا۔ ایک مہذب انسان نے دوسرے مہذب انسان کو شرمندہ کرنے کا آج تک جو موثر ترین طریقہ نکالا ہے اس کا نام وائیوا (زبانی امتحان) ہے”۔لالچی افراد نے شرفاء کی دولت ہتھیانے کا جو سب سے محفوظ طریقہ ایجاد کیا ہے ،وہ داماد بننا ہے۔ داماد جائیداد ہتھیانے کے ماہر ہوتے ہیں۔اکثر اوقات داماد نہ صرف جگر کا ٹکڑا لے جاتے ہیں بلکہ زمین کے ہر اس ٹکڑے پر بھی ان کی نظر ہوتی ہے ، جس سے بیگم کا دور دراز کا بھی تعلق ہو۔کہا جاتا ہے کہ داماد تو بادشاہ کو بھی فقیر بنا دیتے ہیں۔داماد قارون کا خزانہ کھا جاتے ہیں اور ڈکار بھی نہیں لیتے:-؎
ہوئے تم “داماد” جس کے
دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
برصغیر پاک و ہند میں خواتین کی تاریخی قربانیوں پر روشنی ڈالتے ہوۓ لکھتی ہیں” جو عورتیں ستی ہو جاتی تھیں وہ شوہر کی وفادار ہوتی تھیں یا نہیں،؟ یہ تو کوئی تاریخ دان ہی بتا سکتا ہے۔ بطور ایک ماہر سماجیات و نسوانیات کے، مقالہ نگار کو یقین کامل ہے کہ ستی ہونے والے خواتین اتنا بڑا قدم اپنے والد اور خاندان کی عزت کیلیے اٹھاتی تھی۔انہیں مکمل ادراک تھا کہ ایک داماد کی وجہ سے ان کے خاندان پر کیا کیا آفات آئی ہیں ، وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کے والدین دوبارہ اس اذیت سے گزریں”۔مضمون میں طنز اور مزاح نگاری کے نمونے بھی ملتے ہیں۔ لکھتی ہیں “والدین بیٹی کے ساتھ ہنسی خوشی رہ رہے تھے۔ پھر انہوں نے بیٹی کی شادی کر دی” ۔داماد ایک ایسی سلیٹ ہوتا ہے، جس پہ لکھا روز نیا ریٹ ہوتاہے، داماد کا اپنا نہ کوئی ویٹ ہوتا ہے۔ داماد کا نام فخر بھی ہو، تب بھی اس پر فخر نہیں کیا جا سکتا”۔ ایک داماد نے اپنی بیوی کے والدین کا سب کچھ بکوا دیا، پھر بھی بیگم کے والدین کو قرض لینے کیلیے مجبور کرتا رہا۔
بیٹی کی محبت میں ہم بے گھروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
مقالہ نگار کو انگریزی پر عبور ہے تو مقامی رسم و رواج سے بھی مکمل آگہی ہے۔فرماتی ہیں” انگریزی لفظ “سن ان لا” :داماد ہمارے ہاں ترجمہ کیا جاتا ہے،” سُن اور لا”۔ بچیاں ساری زندگی اور لاتی رہتی ہیں۔زندگی ختم ہو جاتی ہے، ہوس ختم نہیں ہوتی”۔کالم نگار کا مقالہ نگار کی راۓ سے متفق ہونا ضروری نہیں مگر ان کی راۓ کا احترام کرنا ضروری ہے۔
محترمہ سیتی اور محترم سیفی صاحب کے مقالہ جات کے چیدہ چیدہ نکات سے آئندہ بھی انہی صفحات میں عوام الناس کو آگاہ کیا جاۓ گا۔مضمون میں ایک جاپانی کہاوت بھی درج ہے ۔
“بیٹی کا شوہر اجنبی ہوتا ہے”۔ کہاوت پر تبصرہ کرتے ہوۓ لکھتی ہیں” بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی”۔مقالہ خاتون کے اعلی شاعری ذوق کا ثبوت ہے۔ آپ کے ذوق کی نظر؎
روز کے جھگڑوں سے داماد نے تنگ آ کر کہا
ٹھوکریں ماریے، دھدکاریے، دیجیے گالی
اپنا گھر چھوڑ کے ہم آپ کے گھر آئے ہیں
ہم سے اب دوسری ہجرت نہیں ہونے والی