جمہوریت یا مفادات کی سیاست؟

[post-views]
[post-views]

ادارتی تجزیہ

گزشتہ چار دہائیوں سے پاکستان میں جمہوریت کی جدوجہد کا بیانیہ زیادہ تر اصولوں پر مبنی نہیں رہا، بلکہ مخصوص جرنیلوں اور من پسند ججوں کی حمایت حاصل کرنے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ سیاست دان جمہوریت، انصاف اور پارلیمانی بالادستی کے دعوے تو ضرور کرتے ہیں، لیکن عملاً یہ جدوجہد صرف اس وقت کی جاتی ہے جب اسٹیب ان کے مفاد کے مطابق کام نہ کر رہی ہو۔

پاکستانی سیاسی اشرافیہ نے جمہوری اقدار کو ذاتی مفادات کے ساتھ مشروط کر دیا ہے۔ جب عدالتوں سے حق میں فیصلے آتے ہیں تو عدلیہ کو انصاف کی علمبردار قرار دیا جاتا ہے، اور جب فیصلے خلاف ہوں تو اسی عدلیہ کو متنازع یا اسٹیب کا ہتھیار کہا جاتا ہے۔ اسی طرح، جب فوج سیاسی حمایت دے تو اسے قومی استحکام کی ضمانت سمجھا جاتا ہے، اور جب حمایت نہ دے تو اسے مداخلت قرار دے دیا جاتا ہے۔

یہ رویہ جمہوریت کے حقیقی جوہر کو کھوکھلا کر چکا ہے۔ اداروں کی مضبوطی کے بجائے، سیاست دانوں نے اپنی سیاسی بقا کے لیے ان اداروں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ اس طرزِ سیاست سے نہ صرف انتخابی عمل بے وقعت ہوا ہے بلکہ پارلیمان بھی محض رسمی ادارہ بن کر رہ گئی ہے۔

اگر پاکستان میں حقیقی جمہوریت مطلوب ہے تو سیاسی قیادت کو ذاتی مفادات کے بجائے اصولوں کی بنیاد پر سیاست کرنی ہوگی۔ من پسند فیصلے اور پشت پناہی حاصل کرنے کی بجائے، ادارہ جاتی خودمختاری، عدالتی غیرجانبداری اور فوج کا سیاسی عمل سے دور رہنا ضروری ہے۔ بصورتِ دیگر، جمہوری بیانیہ صرف نعرہ ہی رہے گا، حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی۔

#پاکستان_میں_جمہوریت #اداروں_کی_خودمختاری #سیاسی_بالادستی #آئینی_حکمرانی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos