Premium Content

Add

ایف آئی آر کا اندراج قانونی حیثیت

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: طاہر مقصود

مصنف پنجاب پولیس سے ریٹائرڈ ایس ایس پی ہیں۔

ایف آئی آردراصل وہ پہلی اطلاع ہے جس پر پولیس حرکت میں آتی ہے۔ مجموعہ ضابطہ فوجداری ایکٹ نمبر۵آف1898ء اگرچہ برٹش پارلیمنٹ کے پاس شدہ قوانین ہیں۔ تاہم جب مملکت خداداد پاکستان وجود میں آئی تو قانون آزادی ہند بابت1947 کی دفعہ(3)18 کی رو سے وہ قوانین جو برطانوی ہندوستان میں 15 اگست 1947ء سے عین قبل قائم اور نافذ العمل تھے جمہوریہ پاکستان کے صوبوں میں اور وفاقی دارلحکومت میں موثر قرار دیے گئے۔ چنانچہ مجموعہ ضابطہ فوجداری 1898 ء ہی پاکستان کا موجودہ فوجداری قانون کا ضابطہ ہے۔
مجموعہ ضابطہ فوجداری کی دفعات154 سے173 تک بیس دفعات ابتدائی اطلاع کے وصول ہونے سے لیکر تفتیش مقدمہ کرنے اور حتمی رپورٹ عدالت میں پیش کرنے تک کا طریقہ کار بتلاتی ہیں۔البتہ اطلاع غیر واضع اور مبہم ہونے کی صورت میں قوائد پولیس کے باب۴۲پہرہ۴ کے تحت پولیس کو اختیار ہے کہ روزنامچہ میں رپٹ تحریر کرکے تصدیق کے بعد کاروائی کرے۔
پولیس ابتدائی اطلاع عام طور پر قابل دست اندازی پولیس جرم اور جرم ناقابل دست اندازی پولیس کے بارے میں وصول ہوتی ہے۔ کونسا جرم قابل دست اندازی پولیس ہے اور کونسا ناقابل دست اندازی پولیس ہے، جاننے کے لیے مجموعہ ضابطہ فوجداری کتاب کے آخر میں ایک جدول دیا گیا ہے۔ لیکن عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ وہ جرائم جن کی سزا تعزیرات پاکستان میں کم از کم تین سال مقرر ہے قابل دست اندازی پولیس جرم ہے، مگر لوکل اینڈ اسپیشل قوانین کی صورت میں یہ شرط نہیں ہے۔
ضابطہ فوجداری کی دفعہ 155 پولیس افسران کو پابندکرتی ہے کہ وہ ناقابل دست اندازی پولیس جرائم کی اطلاع کی صورت میں روزنامچہ میں رپٹ درج کرکے اطلاع دہندہ کو علاقہ مجسٹریٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کرے۔ یہاں تک تو کوئی مسئلہ نہیں اور فرنٹ ڈیسک قائم ہونے اور نگرانی کا آن لائن نظام موجود ہونے کیوجہ سے عام طور پر شکایات کا اندراج ہوجاتا ہے۔ مسئلہ اس وقت پیش آتا ہے جب جرم قابل دست اندازی پولیس کی اطلاع موصول ہوتی ہے۔ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 154 آفیسر مہتمم تھانہ کو پابند کرتی ہے کہ ایسی اطلاع پر فوری مقدمہ درج کرے_ قانونی طور پر تو یہ سیدھی سی بات ہے مگر عملی طور پر یہ کام جوئے شیرلانے کے مترادف ہے اور اندراج مقدمہ سے انکار پولیس کے لیے بدنامی کی شاید سب سے بڑی وجہ ہے۔ پولیس مقدمہ درج کرنے سے انکاری کیوں ہوتی ہے، وجوہات جاننے کیلئے مختلف افسران پولیس سے بات چیت کی گئی تو جو نتیجہ نکلا اسکا خلاصہ کچھ یوں ہے۔ معاشرہ میں جھوٹ اور فریب عام ہے لوگ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنے مخالفین کو غلط مقدمات میں ملوث کرتے ہیں جس سے پولیس افسران کا نہ صرف وقت بربادہوتا ہے بلکہ بدنامی اور بدعنوانی کے الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ آج نگران وزیر اعلیٰ پنجاب پریس کانفرنس کے دوران شکوہ کرتے ہوئے نظر آئے کہ ایک سیاسی پارٹی کا ورکرایک حادثہ میں فوت ہوا تو اسکے قتل کا مقدمہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور پولیس افسران پر درج کرنے کی خواہش کی جارہی ہے۔

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/inspector-general-police-punjab-k-inqelabi/

اگر دفعہ 154 ض ف پر عمل کیا جائے تو واضع ہے کہ جوبھی اطلاع پولیس کو دی جائے اس پر فوری مقدمہ درج کیا جائے مگر پولیس تفتیش اور ملکی نظام انصاف میں کسی بے گناہ شخص کو بے گناہ ہونے میں جو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسکا اندازہ صرف وہی شخص ہی کرسکتا ہے۔ چنانچہ کسی افسر نے نیک نیتی سے صوبہ بھر کے تھانہ جات کے عملہ کو منع کردیا کہ تعزیرات پاکستان میں مذکور چند جرائم مثلا506,471,468,420,406,452, 489 ایف وغیرہ کی ایف آئی آر درج کرنے سے پہلے کم از کم سب ڈویژنل پولیس آفیسر تصدیق کرے اور اب صورت حال یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سے تحریری اجازت لینی پڑتی ہے۔ اسی طرح پنجاب پولیس نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کیا توتھانہ کا ریکارڈ آن لائن ہونے کیوجہ سے نگرانی کا نظام قدرے بہتر ہوگیا اور اب تھانہ کے ریکارڈ تک متعلقہ تھانہ کے ہر سینئر آفیسر کی رسائی ممکن ہے، مگرمختلف جرائم کے مقدمات کے اندراج کے لیے کم از کم وقت مقرر کردیا گیا۔ افسران کی نیت جتنی بھی صاف ہو مگر یہ احکامات اندراج مقدمہ کے بنیادی قانون154 ض ف کی خلاف ورزی ہے، اور غیر قانونی کام کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایف آئی آرکے اندراج نہ کرنے کی باز گشت سپریم کورٹ تک بھی پہنچی تو سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم سے ہر ضلع میں ایک ایس پی عہدہ کے آفیسر کو ڈسٹرکٹ کمپلین آفیسر مقرر کر دیا گیا مگر عوام الناس کی شکایات میں کمی نہ آئی بلکہ اب پولیس افسران خود لوگوں کو مشورہ دیتے نظر آتے ہیں کہ وہ بائیس اے اور بائیس بی ضابطہ فوجداری کے تحت سیشن کورٹ سے رابطہ کریں۔ مقدمات برخلاف مال عام طور پر افسر مہتمم تھانہ درج کرنے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کرتے ہیں۔ کیونکہ علاقہ میں جرائم کے اضافہ پر متعلقہ تھانہ کے ایس ایچ او کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے حالانکہ جرائم میں اضافہ کی وجوہات میں بے روزگاری، غربت، جہالت، آبادی میں اضافہ، معاشرتی عدم مساوات وغیر ہ بھی شامل ہیں اور کسی پولیس آفیسر کا ان پر کنٹرول نہ ہے۔ ایس ایچ او کے پاس جرائم کنٹرول کرنے کا آسان حل یہی ہے کہ مقدمہ ہی درج نہ کرے۔ نہ ہوگا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔
کسی بھی مقدمہ کے اندراج سے پہلے تصدیق واقعات کرنا یا کم سے کم وقت مقرر کرنا ایک تو خلاف قانون ہے دوسرا تھانہ کے عملے کو ایک طرح کا صوابدیدی اختیار بھی دیتا ہے جسکا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ انسپکٹر جنرل پولیس کو بذات خود سب ڈویژنل پولیس آفیسر کو فون کرنا پڑتا ہے کہ مقدمہ درج ہوسکے۔ سپریم کورٹ،ضلعی عدالتوں اور اعلیٰ افسران کی کوششوں اور احکامات کے باوجود ایف آئی آر کا آزادانہ اندراج ممکن نہیں ہے تو ایک دفعہ تمام قسم کے صوابدیدی اختیارات کو ختم کرکے بنیادی قانون154 ض ف پر عمل کرکے دیکھ لیا جائے اور پولیس افسران جتنی طاقت مقدمات کے درست اندراج پر دیتے ہیں اتنی کوشش اور طاقت تفتیش کو درست کرنے پر صرف کریں اور تفتیشی افسران کو پابند کریں کہ کسی ملزم کو جو تفتیش میں بے گناہ ثابت ہو کسی صورت گرفتار نہ کریں۔ گرفتاری ملزمان کو سپر وائزری آفیسر باآسانی مانیٹر بھی کرسکتے ہیں۔ تفتیشی افسران کو گرفتاری ملزمان کیلئے نگران آفیسر کی اجازت سے مشروط بھی کیا جاسکتا ہے ایف آئی آر کے اندراج کیلئے اگر بنیادی قانون 154 ض ف تقریباً 125 سال پرانا قانون ہے جو یقیناً اس وقت کے معاشرہ سے میچ نہیں کرتا یہ بہترین وقت ہے کہ پولیس کی کمان حکومت وقت کو اس قانون میں تبدیلی کی تجویز کرے۔ اورایف آئی آر کے اندراج سے قبل اینٹی کرپشن اسٹیب اور ایف آئی اے کی طرز پر ابتدائی انکوائری کیلئے جانے کی اجازت حاصل کرے۔ بصورت دیگر لوگ اپنے مخالفین کو پھنسانے کیلئے پولیس کو استعمال کرتے رہیں گے اور پولیس بے گناہ سرکاری افسران اور حکومتی اہلکاران کے نام ایف آئی آر میں آنے سے بچانے کیلئے خود بدنامی مول لیتی رہے گی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

AD-1