Premium Content

Add

انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کے انقلابی اقدامات

Print Friendly, PDF & Email

مصنف: طاہر مقصود

مصنف پنجاب پولیس سے ریٹائرڈ ایس ایس پی ہیں۔

پنجاب کی موجود ہ نگران حکومت نے غیر جانبداری کا تاثر دینے کے لیے صوبہ میں تعینات تقریباً تمام افسران کو تبدیل کر دیا۔ تبدیلی کی اس لہر میں انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب بھی تبدیل ہوئے اور 24 جنوری 2023 کوڈاکٹر عثمان انور نے پنجاب پولیس کی کمان سنبھالی تو انہیں کئی طرح کے چیلنجز کا سامناتھا لیکن انہوں نے کمال مہارت اور انتہائی تیز رفتاری سے کام کرنا شروع کیا تو ان کے ماتحت افسران ڈی پی اوز، آرپی اوز نے نہ چاہتے ہوئےبھی  اپنے روزمرہ کے کاموں کی طرف توجہ دینی شروع کر دی۔ انسپکٹر جنرل پولیس نے بذات خود ٹیلی فون نمبر 1787 پر عوام الناس کی شکایات سنی اور متعلقہ افسران سے باز پرس بھی کی۔ ملتان میں کسی سائل کا مقدمہ نہ  درج کرنے پر انسپکٹر جنرل پولیس نے بذات خود متعلقہ ڈی ایس پی  کو کال کر کے اندراج مقدمہ نہ کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیا اوریہ فون کال سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوئی اس کے بعد کس کی مجال تھی کہ پنجاب بھر میں کوئی ایف آر درج نہ کرے لیکن ابھی اس پر مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور میرے خیال میں متعلقہ ایس ڈی پی او کے ساتھ ساتھ ڈی پی اوسے بھی باز پرس ہونی چاہیے۔

ڈاکٹر عثمان انور بخوبی آگاہ ہیں کہ پولیس افسران ذاتی زندگی میں پر سکون اور مطمئن ہو نگے  تو وہ لوگوں کی خدمت بہتر انداز میں کرسکیں گے چنانچہ انہوں نے جونیئر رینک کے افسران سے ملاقاتیں کیں اور ماتحت افسران کی فلاح و بہبود کے لیے انقلابی اقدامات کا اعلان کیا مثلاً

دہشت گردی کا شکار ہو کر مضروب ہونے والے افسران پولیس کی مالی امداد میں اضافہ۔

دوران ڈیوٹی فوت ہونے والے افسر کے کفن دفن کیلئے دی جانے والی رقم میں اضافہ جو پچاس ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ روپیہ کردی گئی ہے۔

شہداء کی فیملی کے لیے گھر اور زیر تعلیم بچوں کے لیے مفت یو نیفارم اور کتابوں کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔

پولیس افسران کی بیٹیوں کی شادی کیلئے گرانٹ میں اضافہ کیا گیا ہے۔

کچھ افسران کے بچے اسپیشل بچے ہیں ایسے بچوں کو والدین کی خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے تو ایسے میں پولیس افسران اپنے فرائض منصبی کما حقہ طور پر ادا نہ کر سکتے تھے۔ انسپکٹر جنرل پولیس نے  ایسے بچوں کی تعلیم و تربیت اور علاج معالجہ کے لیے ڈی آئی جی ڈاکٹر انعام وحید کی سربراہی میں خصوصی سیل بنایا ہے اور ڈاکٹر انعام وحید سے بہتر اس تکلیف کو شائد کوئی اورمحسوس نہ کر سکے۔ ایس ایس پی فیصل گلزار کی بیگم نے اپنے اسپیشل بچے کی محبت  میں خصوصی بچوں کی تعلیم میں ماسٹر ڈگری حاصل کر رکھی ہے خصوصی بچوں کی ماؤں کی تربیت کے لیے ان کی خدمات سے استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

انسپکٹر جنرل پولیس نے اپنی زیر کمان ضلعی  اور ریجنل  افسران کو حکم دیا کہ وہ ماتحتان  کے شوکاز نوٹسز ، اپیلوں کے بارے میں فوری فیصلہ کرائیں اس سے یقیناًماتحتان میں پائی جانے والی بے چینی اور نہ امیدی کی کیفیت میں کمی آئے گی۔

 ڈاکٹر عثمان انور صاحب کا ایک اور حکم  جس نے ماتحتوں کوان کا گرویدہ کر دیا ہے وہ ہے کہ ترقی کے وقت محکمانہ سزاؤں کے اگر منفی نمبر گنے  جائیں گے تو سرٹیفکیٹ اور انعام کیلئے مثبت نمبر بھی گنے جائیں گے جو اس سے پہلے نہیں ہوتا تھا۔

  سوشل میڈیا ٹیم کو متحرک کیا ہے جو اس وقت پنجاب پولیس کا بہتر امیج پیش کر رہا ہے۔

ان تمام اقدامات کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر عثمان انور نے دم توڑتی ہوئی روایت کو زندہ کیا ہے وہ کسی بھی غیر معمولی واقع کی صورت میں فوری موقع پر پہنچتے ہیں۔ جیسے میانوالی میں تھانہ پر حملہ ہوا تو اگلے ہی روز انسپکٹر جنرل پولیس بذات خود تھانہ میں پہنچے اور دہشت گردوں کے حملےکو نا کام بنانے والے افسران کو نقد انعامات سے نوازا۔ انہیں گلے لگایا اور ماتھا چوما۔ گزشتہ روز رحیم یار خان پہنچے اور دریائے سندھ کے کچے کے علاقے میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف برسر پیکار جوانوں کی حوصلہ افزائی کی۔ اُن کے اس اقدام سے ماتحت افسران میں یہ احساس اجاگر ہوا کہ ان کا کمانڈران کے ساتھ ہے۔

 انسپکٹر جنرل پولیس نے بہت اچھے اقدامات کیے ہیں مگردو کام ایسے ہیں جو ابھی بھی ان کی توجہ کے محتاج ہیں۔ پہلا کام بوقت ریٹائرمنٹ واجبات کی ادائیگی اور پنشن کا تعین ہے۔ بقول شفقت اللہ مشتاق” کوئی ملازم جب اپنی ریٹائر منٹ کا سوچتا ہے تو اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں ، اس کو تریلیاں آنی شروع ہو جاتی ہیں اور بعض اوقات آنکھیں آبدیدہ ہو جاتی ہیں”۔ میرے خیال میں سرکاری ملازم کی یہ کیفیت ملازمت کے اختتام کا سوچ کر نہیں ہوتی بلکہ جب وہ سوچتا ہے کہ اب اس کا سامنا پنشن کلرک سے ہوگا اور اُس سے ماضی کے تمام حساب بے باک  کرنے ہیں اورکلرک ویسے بھی حساب کتاب کے ماہر ہوتے ہیں تو ریٹائر ہونے والے ملازم کی جان پر بن آتی ہے اور پنشن کلرک کے لیے ریٹائر ہونے والے آفیسر کا عہدہ اور گریڈ کوئی معانی نہیں رکھتا۔ چونکہ میں خود اس کرب کا شکار رہا ہوں تمام تر کوشش اور محکمانہ تعلقات کو استعمال کرنے کے باوجود گیارہ ماہ کے بعد پنشن کے حصول میں کامیاب ہوا تھا اس لیے مجھے اندازہ ہے کہ ریٹائر ہونے والے سرکاری ملازم پر کیا گزرتی ہے اب ہر کوئی قدرت اللہ شہاب اور مرزا غالب تو ہو نہیں سکتا جو پنشن نہ ملنے پر بھی خدا کا شکر گزار بندہ رہے۔

پولیس آفیسر کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ اور دن پہلے سے معلوم ہوتا ہے اور اگر تمام ضروری خط و کتابت اور منظوری وغیرہ پہلے سے کر لی جائے اور ہر ضلع اور انسپکٹر جنرل پولیس کے دفتر میں موجود ویلفیئر برانچ کیس کی پیروی کرے تویہ قطعی ممکن ہے کہ ریٹائر آفیسر کو بوقت ریٹائر منٹ اس کے تمام واجبات ادا کر دیے جائیں چونکہ اب تنخواہ کا نظام کمپیوٹر پر سنل  نمبر سے منسلک ہے اس لیے دیگر اضلاع سے سروس اسٹیٹمنٹ کا حصول بھی مشکل نہ ہے۔

 دوسرے نمبر پر جو انتہائی اہم مسئلہ انسپکٹر جنرل پولیس کی توجہ کا منتظر ہے وہ ترقی کیلئے بر وقت بورڈ میٹنگ کا انعقاد ہے گزشتہ سات آٹھ سالوں میں براہ راست بھرتی ہونے والے سب انسپکٹر کے پروموشن رولز میں گنجائش ہے کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ امتحان لے کر ان سب انسپکٹر کو فاسٹ ٹریک پرو موشن پالیسی کے تحت بطور انسپکٹر ترقی دی جائے۔ براہ راست سب انسپکٹر بھرتی ہونے والے افسران انتہائی پڑھے لکھے ہیں اور گزشتہ سات آٹھ سال کے عملی تجربہ نے ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کر دیا ہے اور آنے والے وقت میں یہ لوگ محکمہ کے لیے اثاثہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ جو اس وقت مایوسی کا شکار ہورہے ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ محکمانہ عدم دلچسپی کی وجہ سے مختلف عہدوں کی سینکڑوں آسامیاں خالی ہیں۔ جناب ڈاکٹر عثمان انور انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب اپنے ہمدردانہ  اور مخلصانہ اقدامات اور احکامات کیوجہ سے اپنے ماتحتوں میں ہر دلعزیز ہیں اور اس وجہ سے اُنہوں نے جو نیک نامی اور شہرت کمائی ہے وہ یقیناً انکی بقایا سروس اور زندگی کے لیے سرمایہ ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

AD-1