Premium Content

Add

ہم چار سو سال سے رکے ہوئے ہیں

Print Friendly, PDF & Email

مصنف:    ڈاکٹر محمد کلیم

کچھ دن پہلے اپنے امیر دوست جو کہ لاہور میں پلاٹوں کی خریدو فروخت کا کام کرتے ہیں، کے ساتھ سرکاری دفتر جانے کا اتفاق ہوا جہاں پر پلاٹوں کی رجسٹری کی جاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوا کہ لاہور کا ہر امیر آدمی پلاٹوں کی خریدوفروخت کا کام کرتا ہے۔ اس لیے پلاٹوں کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں اور غریب اور مڈل کلاس کے لوگ اپنی عمر بھر کی جمع پونجی سے بھی لاہور میں پانچ مرلے کا مکان نہیں بنا سکتے۔ جب ہم نے غور کیا کہ ہمارے ہاں کیوں جائیداد کی قیمتیں اتنی زیادہ ہیں تو معلوم ہوا کہ ہم ابھی تک چار سو سال پہلے کے وقت میں رکے ہوئے ہیں چلیں آپ کو بھی بتاتے ہیں کیسے؟

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/pakistan-ma-property-kaisy-kharidi-jaye/

چار سو سال پہلے کا زمانہ جب صنعتی انقلاب نہیں آیا تھا (ویسے ہمارے ہاں تو ابھی تک نہیں آیا) لوگوں کا پیشہ زراعت تھا اور اس میں ہمارے ہاں دو طبقے موجود تھے ایک جاگیردار (وہ اب بھی موجود ہے ) اور دوسرا مزارعہ۔ اس صورت حال میں جاگیردار کی کوشش ہوتی تھی کہ مزارعہ کو صرف اتنا دے کہ وہ زندہ رہ سکے باقی سب کچھ وہ لے جائے۔ مزارعہ بے بس ہوتا تھا لیکن کیونکہ اس وقت کوئی بھی شے لکھت پڑھت میں نہیں تھی تو مزارعہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑے طریقے سے کچھ نہ کچھ فالتو اپنے لیے بنا لیتا تھا جس کا جاگیردار کو معلوم نہیں ہوتا تھا تو ایک ایسا معاشرہ یا تعلق موجود تھا جس میں مقرر کیے ہوئے حصہ سے زیادہ کی طلب رہتی تھی اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ میں مزارعہ کو غلط کہہ رہا ہوں اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنا حصہ اس کو دیا جاتا تھا اس میں اس کا گزر بسر ہونا ممکن نہیں تھا۔

یہی وجہ ہے کہ یہ ثقافت ہمارے ساتھ چلتی ہوئی آ گئی ہے آج ہماری تنخواہیں کم اور اوپر کا مال زیادہ ہے کیونکہ ابھی تک چار سو سال پہلے والے دور میں جی رہے ہیں۔ اس دور میں جاگیردار اور مزارعہ کا تعلق ایک دوسرے کے فریق کے طور پر ابھرا۔ یہی وجہ ہے کہ جب آج کے دور میں کاروبار جس میں آپ فریق نہیں رفیق ہوتے ہیں وہاں بھی ہمارا رویہ فریق کا بن جاتا ہے اور ہر شخص چاہتا ہے کہ سب کچھ وہ لے جائے یہی وجہ ہے کہ کوئی بندہ بھی کاروبار کرنے کو تیار نہیں۔

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/sarkari-mulazim-aur-sail/

اس لیے وہ زمین خرید لیتا ہے کیونکہ آ جا کر زمین ہی ایک ایسی شے بچتی ہے جو اگر آپ کے قبضے میں ہے اور آپ کے نام ہے تو اس پر آپ کو دھوکہ ہونے کے مواقع کم ہیں اور پھر اس میں رقم ڈوبنے کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ کاروبار میں نقصان ہو سکتا ہے لیکن زمین میں نہیں۔ دوسری بات جو کل کے جاگیردار وہ آج کے امیر لوگ ہیں۔ جو پہلے بھی کوئی کام نہیں کرتے تھے آج بھی نہیں کرتے اور پلاٹ خرید کر بیچتے رہتے ہیں اور ہاں کبھی کبھی اس کے لیے ان کو بدمعاشوں کی بھی ضرورت پڑتی ہے جو ہمارے ملک میں کرائے پر آرام سے دستیاب ہیں یاد رہے چار سو سال پہلے بھی جاگیردار مزارعوں کو سبق سکھانے کے لیے غنڈہ پالتا تھا بلکہ دیہاتوں میں اب بھی پالتا ہے۔ اس لیے آج آپ کو ملک کے امیر ترین لوگ پراپرٹی کے ٹائیکون ہی نظر آتے ہیں کیونکہ ہم چار سو سال پہلے والے دور میں جی رہے ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

AD-1