پچھلے دو دنوں کے واقعات بتاتے ہیں کہ ریاست نے عمران خان پر شکنجہ کسنے کے لیے اپنی پرانی داستان رقم شروع کر دی ہے۔ سب سے پہلے، اسلام آباد پولیس کی ایک ٹیم اتوار کی سہ پہر لاہور روانہ کی گئی تاکہ پی ٹی آئی کے سربراہ کو زمان پارک کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا جا سکے۔
تاہم، جب پی ٹی آئی کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد اپنے رہنما کے گھر کے ارد گرد جمع ہوئی اور گرفتار کرنے والی پولیس پارٹی سے سامنا ہوا، تو پولیس پارٹی اس یقین دہانی کے ساتھ واپس ہو گئی کہ عمران خان گھر میں موجود نہ ہیں۔ اب ایسا لگتا ہے کہ شہریوں اور پولیس کے درمیان ایک بار پھر آمنا سامنا ہو گاکیونکہ عدالت نے عمران خان کی درخواست مسترد کر دی ہےاورپولیس افسران کو عدالتی وارنٹ پر عملدرآمد کے لیےعمران خان کے گھر جانا ہو گا۔
اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ پی ٹی آئی کے سربراہ اس مقدمہ میں عدالت کے سامنے کیوں پیش نہیں ہورہے جیسا کہ وہ دیگر مقدمات میں پیش ہوئے۔سکیورٹی خدشات درست ہو سکتے ہیں، لیکن اگر وہ دوسری عدالتوں کے سامنے اپنی پیشی کو یقینی بنا سکتے ہیں، تواُنہیں توشہ خانہ کیس میں بھی ایسا کرنا چاہیے تھا۔
اگرچہ عمران خان کے اس غیر قانونی عمل کا کوئی دفاع نہیں کیا جا سکتا، حکام کو بھی تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ قانون کی آڑ میں حکام کو بھی اتنا ڈرامہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔
عمران خان کی گرفتاری پر تناؤ ابھی بھی تازہ تھا، پمرا نے بھی عمران خان کے سیاسی حریفوں کا ساتھ دیتے ہوئے ، تقریباً سات مہینوں میں تیسری بار، خان کی تقاریر اور پریس ٹاک کو ٹی وی چینلز پر نشر کرنے پر پابندی لگا دی۔
اسی طرح کی پابندی اس سے قبل 6 ستمبر 2022 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر ختم کردی تھی۔ ایک اورپابندی کو پی ڈی ایم حکومت نے نومبر میں ’جمہوری اصولوں کے خلاف‘ ہونے کی وجہ سے فوری طور پر واپس لے لیا تھا۔
تازہ ترین پابندی کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے، اور امید ہے کہ اس کا جلد فیصلہ آ جائے گا۔ پمرا نے سیاسی لیڈر کی تقاریر پر پابندی لگا کر اپنی تاریخ کو دہرایا ہے۔ اسی طرح کی پابندیاں نواز شریف اور الطاف حسین پر لگائی گئی تھیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب اسی طرح کے حربے استعمال کرتے ہوئے عمران خان کو عوام کی نظروں سے دور کرنے کے منصوبے جاری ہیں۔
چونکہ پیر کو خان کے خلاف مقدمات درج ہونے کا سلسلہ جاری رہا اور نیب کو بھی بدعنوانی کے الزام پر کارروائی شروع کرنے کے لیے متحرک کیا گیا، اس تاثر کو نظر انداز کرنا مشکل تھا کہ مقتدر حلقے اور حکومت یہ نہیں جانتی کہ عمران خان کے ساتھ بغیر کسی سہارے کے کیسے ڈیل کی جائے۔
انتخابات قریب آنے پر، کسی بڑے لیڈر کو نشانہ بنانا شہریوں کے اندر مزید عدم استحکام اور تصادم کو جنم دے گا، جس کا ملک اس موڑ پر متحمل نہیں ہو سکتا ۔