ایران کے جوہری دعوے اور عالمی پابندیاں: طاقت کا ایک بھرپور کھیل

[post-views]
[post-views]

ادارتی تجزیہ

ایران کے حالیہ دعوے کہ اس کے پاس اسرائیل کے جوہری رازوں کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے، کئی سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ تہران کی طرف سے حساس اسرائیلی دستاویزات کے انکشاف کا اعلان مشکوک ہے اور خود ایرانی حلقوں میں بھی اس کی صداقت پر شک کیا جا رہا ہے۔ یہ اقدام بظاہر عالمی توجہ کو ایران کے زیر نگرانی جوہری پروگرام سے ہٹانے اور اسرائیل کو خبردار کرنے کی حکمت عملی معلوم ہوتا ہے، جو بارہا ایران کے جوہری مقامات پر حملے کی دھمکی دے چکا ہے۔ اگرچہ یہ لیک حقیقت پر مبنی ہے تو یہ ایک بڑا انٹیلی جنس کارنامہ ہوگا، لیکن اس کے حق میں شواہد کی کمی اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں اسے پروپیگنڈہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب، یورپی ممالک بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کو اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کی تحریک دینے کے لیے تیار ہیں۔ آئی اے ای اے کی تفصیلی رپورٹ میں ایران کی یورینیم کی افزودگی میں بے تحاشا اضافہ اور ہتھیار بنانے کے قریب سطح تک پہنچنے کا انکشاف ہوا ہے، جو 2015 کے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی قرار دی گئی ہے۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر ایران کو اقوام متحدہ کی پابندیوں کے دائرہ کار میں لایا جا سکتا ہے، جو کہ معاہدے کی میعاد ختم ہونے والے اکتوبر میں نافذ ہو سکتی ہیں۔

ایران کی جانب سے جواباً جوہری بازرسی‌ها کی مزید پابندی اور افزودگی کے عمل میں تیز رفتاری کی دھمکی خطرناک صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔ امریکی اور ایرانی مذاکرات کی تعطل کی وجہ سے اس مسئلے میں پیچیدگیاں بڑھ گئی ہیں، جہاں دونوں فریقین افزودگی کے حقوق پر ایک دوسرے سے متصادم موقف رکھتے ہیں۔ امریکہ مکمل پابندی چاہتا ہے جبکہ ایران اسے اپنی خودمختاری کا حق تسلیم کرتا ہے۔ یہ عدم اتفاق کشیدگی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے، اور ایران کی سخت بیانیہ مغربی ممالک کو اشتعال انگیز قرار دیتی ہے۔

روس کی ثالثی کی پیش کش اس کشیدہ صورتحال میں ایک نیا پہلو ہے۔ ایران کے یورینیم ذخیرے کو عارضی طور پر روس منتقل کرنے کی تجویز اگر عمل میں آئی تو صورتحال کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے، لیکن یہ علاقائی طاقتوں کے درمیان جاری سیاسی کشمکش کی بھی عکاسی کرتی ہے۔

مجموعی طور پر عالمی برادری ایک نازک مقام پر کھڑی ہے جہاں جوہری عدم پھیلاؤ کے اصولوں کی پاسداری اور خطے کی مزید بےچینی کے درمیان توازن قائم کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ موجودہ صورت حال میں سمجھداری اور سفارتی حکمت عملی کے ذریعے بحران کو قابو میں رکھنا ناگزیر ہے تاکہ علاقائی اور عالمی سطح پر عدم استحکام کی شدت سے بچا جا سکے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos