Premium Content

کیا عمران خان کی سیاست ناقابل تسخیر ہے؟

Print Friendly, PDF & Email

سابق وزیر اعظم ملک کے سربراہ کے طور پر اپنے دور میں مقبولیت کی نچلی ترین سطح پر تھے۔ ناقدین اسکی بنیادی وجہ طرزحکمرانی اور خدمات کی عدم فراہمی کو قرار دیتے ہیں۔ تاہم، تحریک انصاف کے حامی خراب  کارکردگی کو کورونا اور اس کے نتیجے میں آنے والی بین الاقوامی کساد بازاری جیسے عوامل کو قرار دیتے ہیں۔ تاہم بنیادی دلیل سے قطع نظر وفاقی حکومت نےقدرے بہتر کارکردگی کا مظاہر ہ کیا ،لیکن صوبائی حکومتیں بالخصوص پنجاب حکومت کی کاردگی متاثر کن نہ رہی۔ ناقدین اس خراب کارکردگی کی وجہ اُس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی غیر قائدانہ صلاحیتوں کو گردانتے ہیں۔

ایک سیاسی اتحاد کے تحت، پاکستان ڈیموکریٹک الائنس، پی ڈی ایم نے نو اپریل 2022 کو حکومت کی تبدیلی کا کامیاب اہتمام کیا۔ حکومت کی تبدیلی کا یہ عمل ایک آزاد سیاسی عمل نہیں تھا  بلکہ عام طور پر پاکستان کی سیاست سے وابستہ پوشیدہ اور غیر پوشیدہ قوتوں کا عمل تھا۔ تاہم، پی ڈی ایم  اور اس کے اتحادیوں نے حکومت کی تبدیلی کے عمل کو یقینی بنایا۔

پی ڈی ایم نے حکومت کی تبدیلی کا یہ عمل سابق وزیراعظم کی  عوام میں گرتی ہو ئی مقبولیت کی وجہ سےمنظم طریقے  سے سرانجام دیا ، کیونکہ پی ٹی آئی ضمنی انتخابات میں زبردست شکست کا سامنا کر رہی تھی۔ پھر، حکومت کی تبدیلی کے بعد، سابق وزیر اعظم کی سیاست حکومت کی تبدیلی کی بدولت  راکھ سے اٹھ کر سیاسی عروج کی بلندیوں پر پہنچ گئی۔ عمران خان نے کامیابی کے ساتھ ایک غیر ملکی سازش کا بیانیہ بنایا اور لوگوں نے اسے تہہ دل سے قبول بھی کیا۔

عمران خان کی سیاسی طاقت کے تین بنیادی حصے ہیں۔ عمران خان کی کرشماتی اور دلکش شخصیت سے آج بھی ایک گروہ بہت متاثر ہے۔ پھر، پی ٹی آئی کی ایک مضبوط سوشل میڈیا ٹیم الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی پارٹی کا تیسرا  بنیادی حصہ ہیں جو پارٹی کو فنڈ دیتے ہیں اور سوشل میڈیا پر خاص طور پر بااثر اور طاقتور لوگوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مضبوط حریف ثابت ہوتے ہیں۔

عمران خان کی سیاسی طاقت کی بھی تین جہتیں ہیں:

           یہ بہت بڑے ہجوم کو ترتیب دے سکتی ہے اور برقرار بھی رکھتی ہے

           یہ اب ایک طاقتور انتخابی قوت ہے جس نے حال ہی میں بہت بڑی فتوحات کو یقینی بنایا ہے۔

           یہ سیاسی بیانیے کی تدبیریں کرتی ہے اور اسے نئی شکل دیتی ہے اور مخالف بیانیے کا سختی سے سامنا بھی کرتی ہے۔

معروضی نقطہ نظر کے مطابق پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا طاقت بے مثال ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کبھی کسی سیاسی رہنما نے جمود کو چیلنج نہیں کیا جیسا کہ عمران خان نے کیا ہے اور یہ صرف پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کی وجہ سے ہوا ہے۔

تاہم، بنیادی سوال حل طلب ہے۔ کیا سابق وزیر اعظم 26 نومبر 2022 کو  لاکھوں کا مجمع اکٹھا کر کے حکومت کو گھٹنوں کے بل مجبور کر دیں گے؟

کیا عمران خان جمود کو توڑ سکیں گے؟ کیا وہ پنڈی کو اپنی سیاسی منشاء کے قریب لائیں گے؟ کیا وہ نئے چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری میں کوئی کردار ادا کر سکیں گے؟

کیا وہ قبل از وقت انتخابات کو یقینی بنا سکیں گے؟

یہ آخری مرحلہ ہی سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کی سیاسی ناقابل تسخیریت کا تعین کرے گا۔ اگروہ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اُن کا شمار ایک بہت بڑی سیاسی قوت کے طور پر ہوگا۔ تاہم اگر وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں بھی ہوتے تو پھر بھی ایک سیاسی قوت رہیں گے ۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos