لیبر، چائلڈ اور چائلڈ لیبر



تاریخ گواہ ہے کبھی وقت کے فرعون نے ماں کو لخت جگر سے محروم کیا تو کبھی سگا باپ بیٹی کو زندہ درگور کرآیا۔ ہندوستان میں آج بھی الٹراسائونڈ کی بنیاد پر ماں کو اولاد سے جنم دینے سے پہلے ہی محروم کردیا جاتا ہے ۔ زندگی کسی بھی دور میں صنف نازک کے لیئے آسان نہیں رہی ۔ ہر خاتون کو اللہ تعالی نے ممتا کا وصف ودیعت کیا ہے ۔ تمام تر تلخ حقائق کے باوجود ایک دکھ ایسا ہے جو ہر خاتون سہنا چاہتی ہے ، بار بار سہنا چاہتی ہے۔یہ دکھ ” درد زہ ” ہے جسے ” لیبر پین ” بھی کہتے ہیں۔ عورت کی زندگی درد سے عبارت ہے اور لیبر سے بھی۔ لیبر کی نوعیت مختلف ہے ۔ ہرعورت ماں بننا چاہتی ہے، لیبر روم جانا چاہتی ہے، بچے کو دنیا میں لانا چاہتی ہے ، اسے مکمل انسان بنانا چاہتی ہے ۔ بچے کو جنم دیتے جانے کتنی مائیں جان کی بازی ہار جاتی ہیں مگر ہر دور میں عورت حیات نو کے لیئے تمام دکھ درد برداشت کرتی ہے۔ جب وہی ماں اپنے بچے کو لیبر کرتے دیکھ تی ہے تو اس کا دکھ ناقابل بیان ہوتا ہے
؎ہم سنا نہیں سکتے تم سمجھ نہیں سکتے
بے دیاروں کے دکھ بھی عجیب ہوتے ہیں

Pl, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com


چائلڈ لیبر دنیا کی ہر ماں کا مسئلہ ہے ۔کہیں کم عمر بچوں کو وردی پہنا کر جنگ کی آگ میں جھونک دیا جاتا ہے ۔ کہیں شکم کی آگ بجھاتے بجھاتے کتنے ہی اطفال کا بچپن مرجاتا ہے ۔ انگریزی کا محاورہ ان معصوموں کے المیے کی ترجمانی کرنے کی کوشش ہے۔ ترجمہ کچھ اس طرح ہے ۔” انتقال تو مدتوں پہلے ہوگیا تھا ، تدفین اب ہوئی ہے”۔ ایک ہنستا مسکراتا ،سکول جاتا بچہ ہر ماں کا پہلا خواب ہوتا ہے۔ کسی کے بچپن کا قتل سب سے مکروہ قتل ہے۔ شاعر نے نہ جانے کیوں کہا
؎یوں قتل سے بچو ں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
جو بچے سکول یا کالج نہیں جا پاتے ،وہ گھڑی گھڑی مرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے اپنے محبوب کو جس لفظ سے سب سے پہلے مخاطب کیا، وہ لفظ “اقرا “ہے۔اسلامی قوانین کے ماہرین کا خیال ہے کہ کوئی بھی “اکراہ “جو کسی بچے کو” اقرا”سے محروم کردے،غیر اسلامی ہے ، قابل سزا ہے۔ ارشاد باری تعالی تعالی کا مفہوم ہے ” والدین کا اپنے بچوں کے فرائض کو ادا کرنا ایسا ہے گویا وہ اللہ کے فرض کو ادا کر رہے ہوں” حدیث پاک کا مفہوم ہے ”چھوٹے بچوں کو کمائی کے بوجھ تلے نہ ڈالا جائے۔“ صد افسوس کہ آج بھی وطن عزیز میں ایسے علاقے ہیں جہاں بچیوں کو تعلیم دلانے کا تصور نہیں ۔ پاکستان میں آج بھی بچوں کی ایک قابل ذکر تعداد ایسی ہے جو تعلیم حاصل نہیں کرپاتی۔چائلڈ لیبر کے اسباب کیاہیں ؟ ذمے دار کون ہے اس انتہائی اہم سوال کا جواب سیفی صاحب کچھ یوں دیتے ہیں ” اس بابت کوئی دو رائے نہیں کہ حکومتی سطح پر چائلڈ لیبر کے خاتمہ کے لیئے انتہائی سنجیدہ کاوشیں کی گئی ہیں۔ ایک محترم وزیر اعلی بھٹہ مزدوری کے تدارک کے لیئے نہ صرف صوبے بھر کی انتظامیہ کو متحرک رکھتے تھے بلکہ ذاتی طور پر بھی چھاپے مارتے تھے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے چائلڈ لیبر کے خاتمےکے لیئے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ تلخ حقیقت مگر یہ ہے کہ جب تک جہالت اور غربت کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوتا ، چائلڈ لیبر سے چھٹکارہ ممکن نہیں ۔ ہاں ایک سچائی یہ بھی ہے ،” کم ہوسکتی ہے چائلڈ لیبر ، اگر تہیہ کرلیں نیبر” غربت کے خاتمے کے لیئے “اخو ت فاونڈیشن” نے سنجیدگی سے کام کیا ہے۔ اخوت کے بانی کہتےہیں ” اگر ہر محلے والے اپنے علاقے کے کسی غریب بچے کی تعلیم و تربیت کا ذمہ لیں تو غربت، جہالت اور چائلڈ لیبر کے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ یہی دور حاضر کی مواخات ہے “
اسلامی معاشرت کے ماہرین کا خیا ل ہے کہ اسلام میں چائلڈ لیبر کا کوئی تصور نہیں ۔ دشمن سے جنگ بھی درپیش ہو تب بھی کم عمر بچوں کو فوج کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا ۔مفکر نے بالکل بجا کہا تھا ” ایک بچے کی موت ایک کائنات کی موت ہوتی ہے، وہ کائنات جو اس نے بڑے ہو کر تخلیق کرنی ہوتی ہے” مندرجہ بالا جملے میں اگر بچے کی بجائے بچپن کا لفظ بھی لکھ دیا جائے تو مفہوم ادا ہوجائے گا ۔ علما کا خیال ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ بچوںکی تربیت نہ صرف والدین کی ذمے داری ہے بلکہ پورے معاشرے کی اجتماعی ذمے داری بھی ہے۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ والدین اپنی اولاد کو جو بہترین تحفہ دے سکتے ہیں، وہ ان کی اعلی تعلیم و تربیت ہے۔ قرآن پاک میں واضح الفاط میں فرمایا گیا ہے کہ عالم اور جاہل برابر نہیں ہوسکتے۔ آنے والی نسلوں کو جاہل رکھنا اتنا بڑا جرم ہے جس کی سزا صدیوں بھگتنا پڑتی ہے ۔ ۔ بچوں کو علم سے محروم رکھ کر چائلڈ لیبر کے جہنم میں جھونک دینا نہ صرف بچوں کے ساتھ ظلم ہے بلکہ پوری قوم کے مستقبل کے ساتھ جنگ ہے ۔ اسلام ہنر مند کو اللہ تعالی کا دوست کہتا ہے مگر ہنر سیکھنے کامناسب وقت معین کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ ہر کام کے لیئے ایک وقت ہوتا ہے اور ہر وقت کے لیئے ایک کام ۔ جب وقت قیام آئے تو سجدے میں نہیں گرنا چاہیے۔علامہ اقبال ایسا کرنے والوں کو نادان کہتے ہیں اور بجا طور پر کہتے ہیں۔ بچپن سکول جانے کے لیئے ہوتا ہے،مسکرانے کے لیئے ہوتا ہے،بستہ اٹھانے کے لیئے ہوتا ہے، دوست بنانے کے لیئے ہوتا ہے، کھیلنے کھلانے کے لیئے ہوتا ہے۔ کسی بچے کو بچپن سے محروم کرنا مہذب معاشرے کا شیوہ نہیں ۔ موجودہ دور میں تو تعلیم بھی کھیل کود کے ذریعے دی جارہی ہے ۔ آئیے چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیئے حکومت کا ساتھ دیں کیونکہ یہ وطن ہمارا ہے ، ہم ہیں پاسبان اس کے ۔
کالم کے اختتام پر اسلم انصاری صاحب کی لازوال نظم :-
“مجھے محبت سے تکنے والو
مجھے عقيدت سے سننے والو
بے مثال لوگو
حيات کی رمزِ آخريں کو سمجھنے والو،
ميں اپنے ہونے کی آخری حد پہ آگيا ہوں
تو سن رہے ہو، مرے عزيزو، ميں جا رہا ہوں
ميں اپنے ہونے کا داغ آخر کو دھو چلا ہوں
کہ جتنا رونا تھا، رو چلا ہوں
مجھے نہ اب انت کی خبر ہے، نہ اب کسی چيز پر نظر ہے
ميں دکھ اٹھا کر، مرے عزيزو، ميں دکھ اٹھا کر
حيات کی رمزِ آخريں کو سمجھ گيا ہوں: تمام دکھ ہے
وجود دکھ ہے، وجود کی يہ نمود دکھ ہے
حيات دکھ ہے، ممات دکھ ہے
يہ ساری موہوم و بے نشاں کائنات دکھ ہے
شعور کيا ہے ؟ اک التزامِ وجود ہے، اور وجود کا التزام دکھ ہے
جدائی تو خير آپ دکھ ہے، ملاپ دکھ ہے
کہ ملنے والے جدائی کی رات ميں مليں ہيں، يہ رات دکھ ہے
يہ زندہ رہنے کا، باقی رہنے کا شوق، يہ اہتمام دکھ ہے
سکوت دکھ ہے، کہ اس کے کربِ عظيم کو کون سہہ سکا ہے
کلام دکھ ہے، کہ کون دنيا ميں کہہ سکا ہے جو ماورائے کلام دکھ ہے
يہ ہونا دکھ ہے، نہ ہونا دکھ ہے، ثبات دکھ ہے، دوام دکھ ہے
مرے عزيزو تمام دکھ ہے!
مرے عزيزو تمام دکھ ہے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos