فیصلہ آج کریں، ورنہ کل نسلیں نقصان اٹھائیں گی

[post-views]
[post-views]

ادارتی تجزیہ

بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے بہت پہلے ہی پاکستان کی آبی غیر یقینی صورتحال نمایاں ہو چکی تھی۔ آج جب دونوں ممالک کے تعلقات مسلسل کشیدگی اور بے یقینی کا شکار ہیں، تو پانی ذخیرہ کرنے کی ہماری محدود صلاحیت صرف ترقی کی رکاوٹ نہیں، بلکہ ایک سنگین اور دیرپا خطرے کی صورت اختیار کر چکی ہے۔

اگرچہ کئی برسوں سے ماحولیاتی ماہرین اس جانب متوجہ کرتے آ رہے ہیں کہ بلند پہاڑوں کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے، بارشوں کے موسم بدل رہے ہیں، اور دریائی نظام پر دباؤ بڑھ رہا ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان پانی کی فراوانی کے زعم سے باہر نکل کر قلت کی حقیقت کو سنجیدگی سے تسلیم کرنے میں تاخیر کر بیٹھا ہے۔

ہر سال، جب دریاؤں میں بہاؤ اپنے عروج پر ہوتا ہے، محض چند ہفتوں کے دوران کروڑوں ایکڑ فٹ پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارے پاس اس قیمتی وسائل کو محفوظ رکھنے کا کوئی وسیع اور مؤثر نظام موجود نہیں۔ اسی دوران، کسانوں کو پانی کی غیر یقینی فراہمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، شہروں میں قلت بڑھتی ہے، اور صوبوں کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرتے ہیں۔

بھارت کی جانب سے معاہدے کی معطلی فوری طور پر پانی کی بندش کا باعث تو نہیں بنے گی، لیکن یہ ایک واضح اشارہ ضرور ہے کہ نئی دہلی اب پانی کو سیاسی دباؤ کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے پر آمادہ ہے۔ اس کے بعد یہ معاملہ محض ملکی نااہلی یا انتظامی غفلت تک محدود نہیں رہتا — یہ ایک بیرونی خطرہ بن چکا ہے، جس سے نمٹنے کے لیے ہماری تیاری ناکافی ہے۔

دیامر بھاشا ڈیم پر حکومت کی توجہ صرف خوش آئند نہیں، بلکہ ناگزیر ہے۔ بڑے آبی منصوبے طویل عرصے سے تکنیکی، مالی اور سیاسی الجھنوں میں پھنسے ہوئے ہیں، مگر اصل مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے: پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت محض تیس دن ہے، جبکہ بھارت کے پاس یہ گنجائش ایک سو ستر دن سے زائد ہے۔ یہ فرق اعداد و شمار کا کھیل نہیں، بلکہ یہ ہماری معیشت، زراعت، خوراک اور معاشرتی استحکام کو براہ راست متاثر کرتا ہے۔

اب جب کہ دریائے سندھ کا نظام بدلتے موسموں اور سیاسی دباؤ کے دوہرے شکنجے میں آ چکا ہے، مزید تاخیر کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ پاکستان پانی کی قلت کے دور میں داخل ہو چکا ہے، اور اگلا مرحلہ — شدید کمی — کسی سیاسی فیصلے کا انتظار نہیں کرے گا۔

یہ بھی یاد رہے کہ صرف بڑے ڈیم اس بحران کا مکمل حل نہیں۔ ایک متوازن قومی حکمتِ عملی میں درمیانے اور چھوٹے ذخائر، نہری نظام کی اصلاح، زیرِ زمین پانی کا مؤثر نظم و نسق، اور زراعت میں پانی کے دانشمندانہ استعمال کو فروغ دینا بھی ناگزیر ہے۔ مگر اگر ہم پانی کے اصل سرچشموں پر مؤثر کنٹرول حاصل نہ کر سکے، تو یہ تمام اقدامات بے اثر ہو جائیں گے۔

وزیراعظم کی بین الصوبائی مشاورت کی دعوت بروقت اور ضروری ہے، مگر اس عمل کو ماضی کی طرح مقامی مخالفتوں یا سیاسی تاخیر کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ پانی صرف ایک صوبے کا مسئلہ نہیں — یہ پورے ملک کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ اگر ایک ڈیم کسی ایک خطے میں تعمیر ہوتا ہے تو اس کے ثمرات تمام علاقوں تک پہنچتے ہیں۔ معاہدے کی معطلی ہمیں یہ سبق دے رہی ہے کہ یہ ایک قومی بحران ہے، جس کا حل صرف قومی یکجہتی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

بھارت کا حالیہ اقدام دراصل ایک رسمی اظہار ہے اُس حکمتِ عملی کا جو پہلے ہی منظرِ عام پر آ چکی تھی — محدود پانی کی فراہمی، بالائی علاقوں میں ڈیموں کی تعمیر، اور سفارتی مزاحمت۔ سوال یہ کبھی نہیں تھا کہ پاکستان کو خود کو بدلنا ہوگا یا نہیں — اصل سوال یہ تھا کہ کب؟ اور اب، وقت آ چکا ہے۔

گرمیوں کا یہ موسم ایک اور امتحان لائے گا۔ شدید تپش، بلند پہاڑوں سے برف کا پگھلاؤ، اور وسیع مقدار میں پانی کا بے مصرف سمندر برد ہو جانا، ہمارے نظام کے نقائص کو مزید بے نقاب کرے گا۔ لیکن اس بار، اس نقصان کو محض قدرتی حادثہ سمجھنے کی بجائے، ایک واضح انتباہ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے — کہ اب عمل کا وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔

دیامر بھاشا جیسے منصوبے کو صرف خبروں تک محدود نہ رکھا جائے۔ اسے ایک نئے باب کا آغاز بنانا ہوگا — ایسا باب جو عارضی ردِ عمل کی بجائے طویل مدتی استحکام اور حکمتِ عملی پر مبنی ہو۔ کیونکہ اگر ہم نے آج بنیاد نہ رکھی، تو کل نہ صرف پانی، بلکہ وقت بھی ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos