
اگر ہم انسانی تہذیب کا سفر مختصر ترین الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو شاید اتنا ہی کہہ دینا کافی ہوگا که قدیم مدرسری معاشرے میں بیوی ہی سب کچھ تھی اور آج کے جدید پدرسری معاشرے میں سی وی ہی سب کچھ ہے ۔ اگر ہم اس کرہ ارض پر تہذیب و تمدن کی کہانی صرف ایک جملے میں بیان کرنا چاہیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ” انسان کا سفر صرف بیوی سے سی وی تک کی کہانی ہے “اب اس سفر میں مرد نے جتنا سفر کیا ہے وہ بتانا شاید مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے ۔
اچھی بیوی اور اچھی سی وی موجودہ دور کے ہر مرد کا خواب ہے ۔ بعض لوگ تو یہ خواب کھلی آنکھوں کے ساتھ بھی دیکھتے رہتے ہیں اور اُن کی آنکھیں اکثر اوقات کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ اگر خواب پورا ہو جائے تو کئی لوگ حیرت سے مر جاتے ہیں اور اگر پورا نہ ہو تو کئی لوگ غیرت سے مر جاتے ہیں۔ کئی لوگ شادی کے بعد بھی بیوی سے زیادہ سی وی کی فکر کرتے ہیں اور اکثر اوقات اپنی سی وی اچھی کرنے کے چکر میں بیوی کا وقت بُرا کرتے رہتے ہیں۔
جب وہ سی وی سے مطمئن ہو کر بیوی کی طرف توجہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ بیوی تو ہمیشہ غیر مطمئن رہی ہے اور اُن کو” جیسی کرنی ویسی بھرنی ” کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ان لوگوں کا یہ یقین مزید پختہ ہو جاتا ہے کہ اچھی سی وی تو بعض اوقات محنت سے بھی مل جاتی ہے مگر اچھی بیوی صرف قسمت سے ہی ملتی ہے اور اگر قسمت بہت اچھی ہو تو آخری دم تک بیوی اچھی رہتی ہے۔
اچھی سی وی بعض اوقات اس دنیا کو جنت بنا دیتی ہے جبکہ اچھی بیوی کے بغیر دوسری دنیا میں جنت کا حصول تقریبا ناممکن ہے۔ دنیا کے بیشتر علاقوں میں ناری ہمیشہ سے ہی اپنے ” پتی “کا انتخاب خود کرتی رہی ہے۔
ہمارے ہاں بھی “ناری” چائے کی” پتی “کا انتخاب ایک عرصے سے خود کر رہی ہے جبکہ پتی کا انتخاب پہلے عموماََ اُس کے خاندان والے خود ہی کر لیتے تھے اور اُس کو اس معاملے میں زحمت نہیں دی جاتی تھی ۔ یہ ا لگ بات ہے کہ وہ” پتی ” کئی دفعہ “ناری” کیلئے نارا ور باعثِ عار ثابت ہوتا تھا۔
اب ہمارے ہاں بھی صورت حال کافی بدل گئی ہے اور آج کی جدید عورت چائے کی “پتی” اور “پتی” کے انتخاب میں خود مختا رہے اور اس بابت کوئی سمجھوتا نہیں کرتی ۔ اگر کبھی “پتی” کی کوالٹی چائے کی “پتی” کی طرح مزیدار نہ ر ہے تو وہ “پتی” کے ساتھ وہی سلوک کرتی ہے جو ایک خاتون نے اپنے بیمار خاوند کے ساتھ کیا تھا۔
خاتون کا خاوند کام کی زیادتی کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھا۔ دونوں میاں بیوی متعلقہ ڈاکٹر کے پاس گئے ۔ ڈاکٹر نے تسلی بخش طریقے سے معائنہ کیا اور پھر خاتون کو کہا کہ میں نے اکیلے میں آپ سے ایک بات کہنی ہے۔ اُس نے خاتون کو کافی دیر سمجھایا کہ اُس کے میاں کو مکمل آرام اور ذہنی سکون کی ضرورت ہے بعد میں میاں نے خاتون سے پوچھا کہ ڈاکٹر نے آپ کو اکیلے میں کیا کہا تھا ؟
خاتون نے بتایا کہ ڈاکٹر نے جواب دے دیا ہے اور کہا ہے کہ آپ کے شوہر کا معاملہ دنیا کے کسی بھی ڈاکٹر کے بس کی بات نہیں۔ آپ بس اللہ کی ذات سے اُمید رکھیں اور دُعا کریں۔ اکثر مرد شادی کی عمر میں اپنی سی وی بہتر کرنے کے چکر میں رہتے ہیں بعض اوقات سی وی تو ہاتھ میں آجاتی ہے مگر اچھے رشتے کی عمر چلی جاتی ہے۔
ایک تقریب جو شمع بناسپتی اور سحر بناسپتی کے تعاون سے منعقد کی گئی تھی، مجھے اُس میں ایک پختہ عمر کے کنوار ے دوست کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا۔ جب تعاون کرنے والوں کا نام پکارا جاتا تو میرے دوست کی آنکھیں خلا میں بھٹکنے لگتیں اور مجھے شدید تشویش ہوتی۔ میرے اصرار پر دوست نے اپنی اس حالت کی وجہ یہ بتائی کہ اُس کو لگتا تھا کہ اناؤنسر کہہ رہا ہے کہ “شمع بناسپتی” ، “سحر بناسپتی” یہ سن کر اپنے دوست کی حالت کا تصور کر کے میری آنکھیں بھی دور خلا میں بھٹکنے لگیں اور خود کو سنبھالنے میں مجھے بھی کافی مشکل ہوئی۔
ایک دوست ایک دن بھرائی ہوئی آواز میں بڑے درد دل کے ساتھ کہنے لگے کہ دنیا اب بہت ظالم ہو گئی ہے۔ وجہ پوچھی تو بہت ہی دکھی لہجے میں بتانے لگے کہ گئے وقتوں میں بندہ ابھی جوان بھی نہیں ہوتا تھا کہ اردگرد کے تمام لوگوں اور پورے قبیلے کواُس کی بیوی کی فکر پڑ جاتی تھی مگر اب بندہ بلوغت کے تمام مراحل گزارنے کے بعد تقریباً فارغ البال ہو چکا ہوتا ہے مگر دنیا کو صرف اُس کی سی وی کی فکر ہوتی ہے۔
جو مرد چاہتا ہے کہ اُس کو بیوی ایسی ملے جو وفا کی دیوی ہو اور اس کی سی وی بھی بہت اچھی ہو، وہ عموماً ایک سے زیادہ شادیاں کرتا ہے مگر کا میاب اکثر اوقات پھر بھی نہیں ہو پاتا ۔ سی وی اچھی ہو جائے تو بیوی اچھی مل جاتی ہے یا بیوی اچھی مل جائے تو سی وی اچھی ہو جاتی ہے، یہ بحث بالکل ایسےہی ہے کہ انڈہ پہلے تھا یا مرغی ۔
جنت الفردوس کا حصول پاکیزہ سی وی کے بغیر ناممکن ہے تو دنیا میں بھی “پاکیزہ” کا حصول اب اچھی سی وی کے بغیر ناممکن ہے۔ میرے ایک دوست جو بی ۔ وی ۔ ( بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال میں کام کرتے ہیں، ایک دن کہنے لگے کہ مجھے اپنے بیٹے کیلئے اچھی بیوی کی تلاش ہے آپ کوئی رشتہ بتائیں۔ میں نے انہیں کہا کہ اگر ایسے ہسپتال میں ہوتے ہوئے بھی اُن کو کوئی رشتہ اچھا نہیں لگتا جو ہے ہی بی ۔ وی ہسپتال تو وہ ابھی صرف اپنے بچے کی سی وی کی فکر کریں ۔ سی وی اچھی ہوگی تو بیوی بھی اچھی مل ہی جائے گی۔ وہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ اچھی سی وی کیا ہوتی ہے میں نے اُن سے کہا کہ پہلے آپ بتائیں کہ اچھی بیوی کیا ہوتی ہے ؟ ابھی تک ہم دونوں ایک دوسرے کے سوال کا تسلی بخش جواب دینے سے قاصر ہیں۔ آپ سب سے اس قصے میں مدد کی اپیل ہے۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭