نظریاتی جدوجہد کی کامیابی کے لیے نظریاتی سیاسی جماعتوں کا ہونا لازم ہے۔ پاکستان میں جمہوریت اور آئین وقانون کی بالادستی و حکمرانی ہمیشہ سے ہی ایک چیلنج رہا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں عدلیہ، بیوروکریسی اور اسٹیب کا کردار پوشیدہ نہیں رہا ہے بلکہ ہنوز جاری ہے۔
اس لیے جمہور کی حق نمائندگی اور حق حکمرانی کی نظریاتی جدوجہد اور کامیابی کو سنجیدہ مسائل درپیش ہیں۔پاکستان میں نظریاتی سیاسی جدوجہد اس لیے کامیاب نہیں ہوئی کہ سیاسی جماعتیں نہ تو منظم ہیں اور نہ ہی نظریاتی۔ پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں ہی وہ تنظیمیں ہیں جو کہ نطریاتی سیاسی جدوجہد کرنے کا سیاسی مینڈیٹ رکھتی ہیں۔ سیاسی جماعت کو عوامی مقبول راہنما کے بعد سیاسی تنظیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیاسی جماعت کا منشور و نظریہ اور لائحہ عمل کا کردار بھی کلیدی ہوتا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں 1985 کے غیر جماعتی الیکشن نے سیاست میں منتخب شدہ کو متعارف کروایا۔ اس الیکشن نے ذات برادری ، دھڑا بندی، رشوت، ٹھیکہ داری، اقربا پروری اور پیسے کو سیاست میں سرایت کیا۔ یہ منتخب شدہ اتنے مضبوط ہوئے کہ تمام سیاسی جماعتیں اب ان کے ذریعے نہ صرف منظم ہوتی ہیں بلکہ انتخابات بھی جیتتی ہیں۔ پاکستان میں سیاسی جماعت کا منظم ہونا محنت طلب کام ہے۔ پارٹی کی تنظیم ، تربیت اور ساخت قائم کرنا بھی مشکل کام ہے۔ اسکے مقابلے میں یہ کہیں آسان ہے کہ حلقوں سے منتخب شدہ اکٹھے کر لیں جائیں اور الیکشن کو جیت لیا جائے ۔ پاکستانی سیاست میں پچھلی دو دہائیوں میں پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق، اور جہاں تک کہ تحریکِ انصاف نے بھی یہی کیا ہے۔
لہذا ہم کہہ سکتے ہیں پاکستان میں دراصل ایک ہی سیاسی جماعت ہے جسکا نام ” منتخب شدہ ”ہے جو کہ جب چاہئیں ، جہاں چاہیں ، ہر طرح کی سیاسی جماعتوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ یہی منتخب شدہ ہی اسٹیب کا اصل سرمایہ ہیں اور یوں طاقت ہمیشہ اسٹیب کے پاس رہتی ہے۔ اس لیے جب سیاسی جماعتیں عوامی جدوجہد کرنا بھی چاھیں تو نہیں کر سکتیں، کیونکہ منتخب شدہ انکا کبھی بھی ساتھ نہیں دیتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر سیاسی جماعتیں نہ ہی منظم ہیں اور نہ ہی نظریاتی قیادت موجود ہے۔ تحریک انصاف کو ہی دیکھ لیں، جو کہ حقیقی آزادی کی جدوجہد میں بظاہر مصروف نظر آتی ہے مگر کیا وہ اتنی منظم اور مربوط ہے کہ ریاستی اداروں کے کریک ڈاؤن اور پریشر کو برداشت کر سکے؟ کیا منتخب شدہ تحریک انصاف کا سرمایہ ہیں یا نظریاتی بوجھ؟ کیا تحریک انصاف پرویز الٰہی ( صدر تحریک انصاف) شاہ محمود قریشی ، عثمان بزدار، مونس الٰہی ، شیخ رشید، اور دیگر کے ہمراہ حقیقی آزادی کی نظریاتی جدوجہد حاصل کر سکتی ہے؟ تحریک انصاف اس نظریاتی جدوجہد میں صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے جب وہ نظریاتی طور پر منظم ہو اور دوسرے ، تیسرے درجے کی نظریاتی قیادت پیدا کرے جو کہ یونین کونسل تک اسکو منظم کرے۔
آن لائن رپبلک پالیسی کا میگزین پڑھنے کیلئے کلک کریں۔
نظریاتی جدوجہد کی کامیابی کے لیے نظریہ بنیادی عنصر ہے اور اگر ایک دفعہ جھول یا کمپرومائز ہو جائے تو نظریاتی جدوجہد بڑھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ حقیقی آزادی کی نظریاتی جدوجہد عمران خان اور تحریک انصاف کا اصل امتحان ہے۔