Premium Content

پاکستان میں عصمت دری کی وبا

Print Friendly, PDF & Email

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران دو ہولناک عصمت دری کے واقعات رپورٹ ہوئے جن میں آٹھ سالہ بچی اور دو بچوں کی ماں شامل تھی۔ ہر کیس کی تفصیلات سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ پاکستان دنیا کی بدترین عصمت دری کی وبا کا شکار ہے، اور سزا کی انتہائی کم شرح خواتین کو اس ساری صورت حال میں مزید مایوس کر دیتی ہے جنہیں اس حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عصمت دری میں واقع مجرم کو مکمل سزا نہ دینا حالات کو سنگین کر دیتا ہے۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ تمام سرکاری اور نجی جگہیں خواتین کے لیے خطرناک اور شکاری جگہیں بن چکی ہیں، جس سے وہ معاشرے میں مکمل طور پر پسماندہ اور بیگانہ ہو چکی ہیں۔ ظاہر ہے کہ امن و امان کا ایک واضح مسئلہ ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کوئی بہت بڑی خرابی ہے جو تبدیلی لانے کی بجائے اس مسئلے کو مزید ہوا دے رہی ہے۔

نئی رپورٹس کے مطابق آٹھ سالہ بچہ ہفتے کے شروع میں لاپتہ ہو گیا تھا۔ جب بچے کی لاش دریافت ہوئی اور پوسٹ مارٹم کیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ اسے قتل کرنے سے پہلے زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.

ایک اور واقعے میں، دو بچوں کی ماں ایکسرے کے لیے ہسپتال گئی تھی لیکن ایکسرے کا عمل شروع ہونے سے پہلے، اسے بلیک میل کیا گیا اور کمپیوٹر روم کے اندر ریپ کیا گیا۔ یہ حقیقت کہ عوامی اور نجی دونوں جگہیں خواتین کے لیے اس قدر غیر محفوظ ہو چکی ہیں، انتہائی تشویشناک ہے، اور ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ کیا کسی بھی ماحول کو محفوظ پناہ گاہ تصور کیا جا سکتا ہے۔ کسی بچے کو اس کے دادا ،دادی کے گھر سے اٹھا کر تشدد کا نشانہ بنایا جانا یا کسی ہسپتال میں عورت کی عصمت دری کرنا جو سب سے محفوظ ترین جگہ تصور کی جاتی ہے، ایک حقیقی بیماری کی طرف اشارہ کرتا ہے جسے ہم نے بحیثیت ایک ملک پالا ہے۔

آن لائن رپبلک پالیسی کا میگزین پڑھنے کیلئے کلک کریں۔     

عصمت دری کے لیے ہماری سزا کی شرح دہائیوں سے شرمناک حد تک کم ہے اور اب یہ 3 فیصد سے بھی کم ہے۔ ظاہر ہے کہ عصمت دری کے انسداد کے قوانین کے نفاذ میں ایک مسئلہ ہے اور تمام متعلقہ ادارے غیر موثر انداز میں کام کرتے نظر آتے ہیں ۔ تاہم اس سے آگے، ہمارے معاشرے کو بیداری کی ضرورت ہے اور مستقبل کے رہنماؤں کو عوام کی توجہ اس لعنت  کو ختم کرنے کی طرف موڑنی چاہیے۔ کسی مسئلے کا حل فراہم کرنے کے لیے، ہمیں یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ موجود ہے اور اس کے ارد گرد گفتگو کو معمول پر لانا چاہیے تاکہ ہم جامع بحث کے ذریعے ایک ایسا ڈھانچہ تشکیل دے اور نافذ کر سکیں جس کے ذریعے ایسےدلخراش جرائم کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos