تحریر: محمد نبیل
صدر مملکت نے 7ستمبر کو پرامن اجتماع و امن و عامہ بل2024 پر دستخط کیےجس کے بعد قانون فوری نافذ العمل ہوگیا۔
حکومت نے بل کی منظوری 5ستمبر کو سینیٹ اور اس کے بعد 6ستمبر کو قومی اسمبلی سے لی تھی۔اپوزیشن نے بل کی شدید مخالفت کرتے ہوئے حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔
اسلام آباد میں پرامن اجتماع اورامن عامہ بل کیاہے؟
قانون کے مطابق کسی بھی سیاسی وغیر سیاسی جماعت کو اسلام آباد میں جلسہ یا کوئی اجتماع کرنے کیلئے اس کی اجازت لینا ہوگی۔اجازت ڈپٹی کمشنر دے گا۔
جلسے کیلئے سات روز پہلے فریق درخواست دے گا۔جس میں جلسے کا مقام، شرکا کی تعداد، وقت اور مقاصد بتانا ہوں گے۔
بغیر اجازت اسلام آباد میں جلسہ کرنے پر تین سال تک قید اور جرمانے کی سزا ہوگی۔ دوبارہ یہی عمل دہرانے پر دس سال تک قید کی سزا دی جاسکے گی۔
بل کے مطابق وفاقی حکومت اسلام آباد کے کسی مخصوص علاقے کو ریڈ زون یا ہائی سکیورٹی زون قرار دے سکتی ہے۔قانون کے تحت ڈپٹی کمشنر کے پاس اجتماع پر پابندی کا مکمل اختیار ہوگا۔
ڈپٹی کمشنر اجازت دینے سے پہلے امن و امان کی صورتحال کا جائزہ اور سکیورٹی کلیئرنس لےگا۔جلسہ پر پابندی کی صورت میں تمام وجوہات تحریری طور پر دی جائیں گی۔
اگر ڈپٹی کمشنر جلسے کی اجازت نہیں دیتا تو متاثرہ فریق پندرہ روز میں چیف کمشنر سے اپیل کرسکتا ہے۔چیف کمشنر بھی اپیل مسترد کردے تو فریق کے پاس اختیار ہوگا کہ وہ سیکرٹری داخلہ کے پاس نظرثانی درخواست دائر کرے۔
کوئی بھی جماعت اجتماع کے دوران امن و عامہ کی صورتحال خراب کرے گی تو پولیس کو جلسہ منتشر کرنے کی اجازت ہوگی جس کیلئے پولیس طاقت کا استعمال کرے گی۔ انتظامیہ، کارکنوں اور شہریوں کو حراست میں لیا جائےگا۔
واضح رہے کہ حکومت نے یہ بل پی ٹی آئی کے 8ستمبر کے جلسے سے پہلے پاس کروایا۔ جس کے تحت تحریک انصاف کو جلسے کیلئے قانون پر عمل کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔