پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار

تحریر: رمضان شیخ

پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی، ناقص صفائی، آپریشن تھیٹرز کی ابتر صورت حال،ڈاکٹرز کا نامناسب رویہ،ادویات کی کمی،مطلوبہ بیڈز کی کمی، بدبودار چادریں،بجلی کا بریک ڈاؤن،آپریشن تھیٹرز میں ایئر کنڈیشنرز کی بندش اور پارکنگ فیس کی اوور چارجنگ جیسے مسائل روزانہ کی بنیاد پر عوام کا منہ چڑا رہے ہیں۔

        چند دن پہلے سب سے بُری حالت سروسز ہسپتال کی رپورٹ ہوئی ہے، جس کے متعلق جان کر یہ دعا زبان سے جاری ہوئی کہ اللہ کسی دشمن کو بھی ہسپتال کے آپریشن تھیٹر میں نہ بھیجے۔ بارش کے دوران سروسز ہسپتال میں بجلی کا بریک ڈاؤن ہوا، جس کی وجہ سے انتہائی نگہداشت کے یونٹس اور وارڈز کے علاوہ آپریشن تھیٹروں میں بھی اندھیرا چھا گیا، باوجود اس کے کہ وہاں مریضوں کے آپریشن کیے جا رہے تھے،تاہم ڈاکٹروں نے اپنی مدد آپ کے تحت آپریشن مکمل کیے۔اس حوالے سے ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی جس میں ڈاکٹرز موبائل فون کی روشنی میں آپریشن کر رہے تھے جس پر وزیراعلیٰ محسن نقوی نے سخت ایکشن لیتے ہوئے سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے پرنسپل اور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو فوری طور پر عہدے سے ہٹا دیا۔سروسز ہسپتال کی انتظامیہ کا موقف تھا کہ جنریٹر میں ڈیزل نہ ہونے کی وجہ سے آپریشن تھیٹروں میں اندھیرا تھا۔وزیراعلیٰ نے بجلی کے بریک ڈاؤن کی تحقیقات کے لئے قائم کمیٹی کی رپورٹ اور سفارشات پر ذمہ داروں کو اُن کے عہدوں سے ہٹایا تھا۔

        یہ کسی ایک ہسپتال کا قصہ نہیں ہے، اکثر ہسپتالوں کی حالت زار ایسی ہی ہے۔ زیادہ تر ہسپتالوں کی حالت فنڈز کی عدم فراہمی یا قلت کے باعث ویسے ہی خراب ہے تاہم جب معاشی حالات کچھ بہتر تھے تب بھی ان ہسپتالوں کو”لاحق کئی مرض“ ایسے  تھے جن کا علاج تاحال ممکن نہیں ہو سکا۔اس حقیقت سے بھی نظریں نہیں چرائی جا سکتیں کہ زیادہ تر سرکاری ہسپتالوں پر مریضوں کا بوجھ اتنا زیادہ ہے کہ ان کا انتظام سنبھالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔بڑھتی آبادی کے مطابق ہسپتالوں کی تعمیر ہوئی اور نہ ہی چھوٹے شہروں میں صحت کی مطلوبہ سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی جا سکی جس کے نتیجے میں بڑے شہروں میں موجود چند سرکاری ہسپتالوں پر بوجھ بڑھتا چلا گیا اور اب حالت یہ ہے کہ زیادہ تر پبلک سیکٹر کے ہسپتالوں میں ہر دوسرے دن ایک نیا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے،ایک مسئلے کا حل نکلتا ہے تو چار مزید مسائل حل طلب ہوتے ہیں۔ ان ہسپتالوں میں وسائل کی کمی، سہولیات کے فقدان اور مریضوں کے ساتھ ناروا سلوک کا رونا ایک عرصے سے رویا جا رہا ہے۔

Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.

        امیر افراد تو ہر چھوٹی بڑی بیماری کا علاج کرانے کے لئے پرائیویٹ ہسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں یا پھر بیرون ملک چلے جاتے ہیں مگر اپنی آمدن کا خطیر حصہ حکومت کو ٹیکس کی صورت ادا کرنے والے ”ٹیکس دہندگان“ کو جو ہسپتال میسر ہیں اُن کی حالت زار ایسی ہے کہ وزیراعلیٰ کو کہنا پڑا ہے کہ وہ اپنے کسی دشمن کو بھی علاج کی عرض سے کبھی یہاں نہ بھیجیں۔ ہسپتالوں میں آسامیاں خالی ہیں لیکن اُنہیں پُر نہیں کیا جا سکتا، نئے بننے والے ڈاکٹر ہاؤس جاب اور تھوڑا تجربہ حاصل کرنے کے بعد ملک سے باہر جا کرکام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں،ینگ ڈاکٹرز کے مطالبات کا سلسلہ حل ہونے کا نام ہی نہیں لیتا،وہ آئے روز اپنا کام چھوڑ کر ہڑتال پر چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے خاص طور پر دور دراز سے آئے مریض اور اُن کے لواحقین مسائل ہی سے دوچار رہتے ہیں۔

آن لائن رپبلک پالیسی کا میگزین پڑھنے کیلئے کلک کریں۔     

سوال یہ ہے کہ اگر وزیراعلیٰ نے ہی ہسپتالوں کے اچانک دورے کرنے ہیں اور غفلت برتنے پر ذمہ داروں کو سزا دینی ہے تو پھر ہسپتال کے انتظامی افسر کیا کرتے ہیں؟وزارتِ صحت اور صوبائی مانیٹرنگ نظام کہاں ہے؟ ایک حکومت آتی ہے اور کوئی پالیسی بناتی ہے، اُس پر نیم دلی سے عملدرآمد شروع ہوتا ہی ہے تو  سرکار تبدیل ہو جاتی ہے، نئے لوگ آتے ہیں اور پرانی پا لیسی کو رد کر کے اپنی نئی پالیسی کا اعلان کر دیتے ہیں۔پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ اینڈ ریسرچ سنٹر(پی کے ایل آئی) کی مثال سب کے سامنے ہے، کیسے ایک ”سٹیٹ آف دی آرٹ“ ادارے کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نئے ہسپتالوں کی تعمیر، موجودہ ہسپتالوں کو وسائل اور افرادی قوت کی فراہمی کا ایسا نظام قائم ہوجو حکومتوں کے آنے جانے سے متاثر نہ ہو اور نہ اس میں کسی قسم کا خلل ڈالاجاسکے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos