
رسل نے کہا تھا کہ علم کی بنیا د شک پر ہے مگرجیسے کچھ لوگ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہوتےہیں ایسے ہی کچھ طالب علم رسل سے آگے نکل گئے اورسمجھنے لگے کہ علم نہیں زندگی کی بنیا د شک پر ہے اور ہرجاندار اور بے جان چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔
ایسے ہی میرے ایک دوست ہیں میں جن کو شکی نواب کہتا ہوں ایک دن میں نے ان سے پوچھا آپکا بلڈ گروپ کیا ہے تو انہوں نے بتایا کہ بی پوزیٹوجس پر میں نے انہیں یہ راز بتایا کہ یہ بلڈ گروپ نہیں ہے قدرت کی طرف سے ایک اشارہ ہے کہ آپکو معاملات کو پوزیٹو انداز میں دیکھنا چاہیے۔
فیض نے اُردو شاعری کو نئے الفاظ ہی عطا نہیں کیے بلکہ پہلے سے مروجہ الفاظ کو بھی نئے معنی سے آشنا کیا۔مجھے بڑی حسرت تھی کہ انگریزی الفاظ کا مفہوم بدلتے بھی دیکھوں۔ یہ سعادت ” کرونا “کے حصے میں آئی ہے۔
پہلے آپ کسی کو کہتے تھے ” بی پوز ٹیو تو وہ یہ سوچ کر معاف کر دیتا تھا کہ بڑوں کا کام نصیحتیں کرناہوتا ہے اور چھوٹوں کا کام اُن کی اس غلطی کو درگزر کرنا اب آپ کسی کو کہتے ہیں “بی پوزیٹو“ تو وہ سمجھتا ہےکہ آپ اسے بددعا دے رہے ہیں اور بددعا دینےوالے کو کوئی اچھا نہیں سمجھتا۔
پہلے کسی کے بارےمیں کہا جاتا کہ وہ بڑا پوزیٹو ہے تو لوگ اُس کی عزت کرتے تھے اب لوگ اس سے ہمدردی کرتے ہیں۔پہلے جو آدمی پوزیٹو ہوتا تھا اس کے گرد ہجوم لگا رہتا تھا اب “نگٹو” آدمی کے گرد ہجوم ہوتا ہےاور پوزیٹو کو قید تنہائی کی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ پہلےکسی آدمی کی تعریف کیلئے پہلا فقرہ یہ بولا جاتا تھاکہ وہ بڑا پوزیٹو ہے اور اس کے بعد اس کی باقی خوبیاں بیان کی جاتی تھیں مگر اب اگر کسی میں یہ کہہ دیا جائے کہ وہ بڑا پوزیٹو ہے تو نہ بولنےوالے کو کچھ اور کہنے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ سننےوالے میں کچھ اور سننے کی سکت ۔
پہلے کوئی خاتون شرماتے ہوئے کہتی تھی کہ میرا ٹیسٹ پازٹیو آ گیاہے تو پورے قبیلے میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی تھی اورمبارکبادوں کا سلسلہ کئی دن جاری رہتا تھا۔
اب کوئی خاتون چپکے سے بتا دے کہ اس کا ٹیسٹ پازٹیو آ گیا ہے تو ہر طرف تشویش پھیل جاتی ہے اور لوگ اظہار ہمدردی کر کر کے تھک جاتے ہیں۔ پہلےکسی آدمی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ نگٹو ہو گیا ہے تو دوسرے لوگ سمجھ جاتے تھے کہ بیچارہ ساری زندگی پازٹیو رہ رہ کر اب مایوس ہو گیا ہو گا اوراب لوگ نگٹو ہونے کیلئے ترس رہے ہیں اور دعائیں مانگ رہے ہیں کہ نگٹو ہیں تو نگٹو ہی رہیں۔
کرونا نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
یہ صورت حال اُن لوگوں کیلئے شدید لمحہ فکریہ ہے جن کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ کرونا کےعلاوہ اُن کی زندگی میں کچھ اور پوزیٹو“ نہیں ہےزندگی میں خیالات اور رویہ “پوزیٹو ہونا چاہیے “اور کرونا” نگٹو “ہونا چاہیے اور اگر خدانخواستہ کرونابھی اللہ کے امر سے پوزیٹیو ہو جائے بندے کو پھربھی “نگٹو” نہیں ہونا چاہیے اور اللہ پاک کی ذات سے “پوزیٹو “گمان رکھنا چاہیے اور کردار ایساہونا چاہیے کہ تمام لوگ دعا کریں کہ اتنا پوزیٹو بندہ ہے کہ اللہ کرے جلد”نگٹو” ہو جائے۔