صدر کی جانب سے صوبوں میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان

ایک ایسے وقت میں جب ملک کو استحکام کی ضرورت ہے، صدر عارف علوی کی جانب سے یکطرفہ طور پر پنجاب اور کے پی میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کے فیصلے نے پاکستان کو ایک بار پھر سیاسی افراتفری میں ڈال دیا ہے۔

صدر کے پریس آفس کے ذریعے اس اقدام کا اعلان کرتے ہوئے، ڈاکٹر علوی نے ”آئینی اور قانونی فرض“ کے طور پر اپنے فیصلے کا دفاع کیا، اور الیکشن کمیشن اور گورنر پنجاب کو مبینہ طور پر اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ معاملات اب کیسے سامنے آئیں گے۔

آئینی قانون کے ماہرین خود بھی منقسم ہیں، کچھ کا کہنا ہے کہ صدر کو انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا حق حاصل ہے، جب کہ دوسرے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ ایسا معاملہ ہے جس کا فیصلہ صرف الیکشن کمیشن ہی کر سکتا ہے۔ کیا ہمیں ایک نئے آئینی بحران کا سامنا ہے؟ کیا ججز مداخلت کریں گے، اور کیا اب ہم ایک اور قانونی ڈرامے کے تماشائی بنیں گے، جس میں عدالتیں فیصلہ کریں گی کہ کون صحیح ہے؟

یہ تازہ بحران متعدد جاری مشکلات کے درمیان سامنے آئے گا جو عام شہریوں کے لیے ناقابل تصور مشکلات کا باعث بن رہے ہیں۔ ہم پہلے ہی معاشی تباہی کے دہانے پر ہیں ، بشمول ڈیفالٹ  اور دہشت گرد گروہوں کے دوبارہ سر اٹھانے سے خطرہ ہے جیسا کہ ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے ہو رہے ہیں۔

یہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ قوم تاریکی، الجھن اور انتشار کی اس مانوس جگہ پر واپس جا رہی ہے ۔یہ سب ہمارے سیاسی رہنماؤں کی بدولت ہے، جن کے پاس ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے کوئی پالیسی نہیں ہے ، وہ صرف ایک دوسرے پر الزامات لگانے میں مصروف عمل ہیں۔

ملک اس نازک مقام پر اس لیے ہے کیونکہ ہمارے سیاستدان ایک بار پھر مضبوط قیادت فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بار بار، وہ اپنی سیاسی بقا کو پہلے اور ملک کو دوسرے نمبر پر رکھتے ہیں کیونکہ وہ اپنی توانائیاں انتخابات کی تاریخ میں ہیرا پھیری پر مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

حکمران مسلم لیگ (ن) مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام ہونے کی وجہ سے اپنے مخالفین کے ہاتھوں ٹھکانے لگنے کے خوف سے انتخابات سے بچنے پر تلی ہوئی ہے۔ یہ  پارٹی مالیاتی لائف لائن اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی واپسی کے لیے  معجزے کا انتظار کر رہی ہے۔

اپنی واضح مقبولیت کے بل بوتے پر پی ٹی آئی بگاڑنے کا کردار ادا کر رہی ہے اور سیاسی پلے بک کے ہر قاعدے کا فائدہ اٹھا کر انتخابات پر مجبور کر رہی ہے۔ پارلیمنٹ ایک سرکس ہے، اور افسوس کی بات ہے کہ الیکشن کمیشن کو حکومتی اقدامات کے لیے ربڑ سٹیمپ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی ان معاملات میں ملوث ہونے میں دائمی ناکامی کا مطلب ہے کہ عدلیہ یا کچھ دوسرے طاقتور حلقے سیاسی فیصلے لے سکتے ہیں۔

اگر ان کے دائرہ سے باہر کے لوگ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو منتخب نمائندے خود ہی اس کا ذمہ دار ہوں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ نہ صرف دونوں صوبوں بلکہ پورے ملک میں  قبل از وقت انتخابات کرائیں۔ ملک کوترقی کے راستے پر لانے کے لیے ضروری ہے کہ حکام  دانشمندی سے کام لیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos