سر !آپ کا اصل نام کیا ہے،کس نے رکھا تھا

[post-views]
The re-appointment of Tauqir Shah on contract basis as principal secretary to PM is an act of nepotism.
[post-views]


صوبہ نیا تھا ،شہر بھی نیا اور ڈی سی صاحب تو بالکل ہی نئے تھے۔ راوی بس اتنا جانتا تھا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب کا تعلق ایک جاگیر دار گھرانے سے ہے۔ ان کا آبائی گاؤں ملحقہ ضلع میں تھا۔ صاحب ضلع دوسرے صوبے میں ابتدائی سروس کے لازمی سال گزار کر حال ہی میں ٹرانسفر ہو کر آئے تھے۔ اُن دنوں چند ایک ڈپٹی کمشنر صاحبان ماتحت عملہ کے ساتھ انتہائی اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ دفتری مراسلے کی تحریر خود بول کر لکھواتے تھے ۔ نمونہ پیش خدمت ہے۔ ” ڈپٹی کمشنر کی طرف سےسپرنٹنڈنٹ پولیس کے نام۔ بحوالہ مراسلہ نمبرفلاں فلاں دفتر مذکورہ۔ یہاں تک گفتگو انتہائی خوشگوار لہجے میں ہوتی تھی۔اچانک حضور والا دھاڑتے تھے۔چنگھاڑتے تھے۔شعلہ بیانی کرنے لگتے تھے”یہاں صرف میں تنخواہ لیتا ہوں کیا؟ تم لوگوں کو سرکار نے بس حرام کھانے کے لیے رکھا ہوا ہے؟ کچھ خود بھی لکھو، مراسلہ مکمل کر کے لاؤ، دستخط کرواؤ اور میری جان چھوڑو “-
راقم الحروف اسسٹنٹ کمشنر،ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کے عہدے پر فائز رہنے والے کئی افراد کی ماتحت پروری کی دیرینہ روایا ت سے مکمل طور پر تو آگاہ نہیں تھا مگر سینہ گزٹ کے چیدہ چیدہ واقعات سن چکا تھا۔ اگر مندرجہ بالا عہدوں میں سے کسی ایک عہدے پر فائز افسر کا تعلق ڈسٹرکٹ مینیجمنٹ گروپ سے بھی ہو تا تھا ، جنہیں بجا طور پر اس ملک کا حاکم سمجھا جاتا رہا ہے، تو یہ سونے پر سہاگا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ چند کج فہم آج بھی” بیورو کریسی کو ” برا کریسی” لکھتے ہیں ، پڑھتے ہیں، سمجھتے ہیں اور اپنے خیالات کی نشرواشاعت بھی کرتے ہیں- ہمارے ڈی سی صاحب تو نہ صرف ڈی ایم جی افسر تھے بلکہ ذاتی طور پر سو مربع کے مالک تھے- ڈی سی صاحب نگران دفتر بھرائے ہوئے لہجے میں گریڈ اٹھارہ کے ایک سٹاف آفیسر کی شکایت کر رہے تھا-راوی کو لگا ‘آج نگران دفتر کی نوکری کا آخری دن ہے’وہ دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ صاحب کہیں نگران دفتر کو تھپڑ رسید نہ کر دیں-اچانک کچھ ایسا ہوا کہ راوی کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں- نگران دفتر نے با آواز بلند زاروقطار رونا شروع کر دیا-ڈپٹی کمشنر صاحب کی پہلے آنکھیں بھیگیں-پھر چہرہ بھی آنسو ؤں سے تر ہو گیا- انہوں نے نگران دفتر کے آنسو پہلے پونچھے پھر اپنے ۔ راقم الحروف کو حکم دیا” اپنے سینئر کو سمجھاؤ ،جو رحم نہیں کرتا ،اس پر رحم نہیں کیا جاتا-آ یندہ کسی کی دل آزاری کی تو اچھا نہیں ہو گا-


اگلے ہی دن حاکم ضلع نے ڈپٹی کمشنر کمپلیکس میں واقع تمام دفاتر اور شاخوں کا دورہ کیا-راقم کا کمرہ بھی دیکھا جو انتہائی مختصر تھا-کمرے سے ملحقہ غسل خانہ انتہائی وسیع و عریض تھا۔اس “کھلے تضاد “کی وجہ عرصہ دراز سے تعینات افسران اور اہلکار بھی نہ بتا سکے-راقم الحراف ازل سے ٹھہرا ، قلبی ولسانی بے اعتبار و بے اختیار شخص۔ زبان پھسل گئی ” سر ویسے تو معاملہ اک مکمل ریسرچ کا متقاضی ہے۔بادی النظر میں تو یہی جان پڑ تا ہےکہ غسل خانہ بنانے والوں کو خیال آیا ہو گا،اتنی خوبصورت جگہ کسی کو دیکھنی بھی چاہیے- کیوں نہ ساتھ ایک دفتر بھی بنا دیا جائے-“ڈپٹی کمشنر صاحب نے فلک شگاف قہقہہ لگایا-کاش وہ راقم کو ڈانٹ دیتے- اس قہقہے کے طفیل، راقم آج تک ان سے دوستی تو کیا ،ان کا برادر خورد ہونے کا دعوے دار ہے،ایک عالم کو اس کے دعوے پہ اعتبار ہے، ڈی ایم جی افسر کا رویہ آج بھی اس رشتہ کا پاسدار ہے-
ڈی سی صاحب “صا دقین “تو نہیں تھے مگر” صا دقی ین “ضرور تھے-صادق پبلک سکول سے پڑھے تھے-انگریزی پر عبور تھا-پھر بھی چہرے پر نور تھا-جھوٹ سے نفرت تھی، سچ بولتے تھے اور صرف سچ ہی بولنے دیتے تھے ۔ گھلتے ملتے نہیں تھے ۔ ہر کسی کی عزت کرتے تھے اور اپنی عزت پر بھی حرف نہیں آنے دیتے تھے-ما تحتوں کو کھلاتے تھے۔ان سے کھاتے نہیں تھےمگر ان کو ستاتے بھی نہیں تھے-اکیلے رہتے تھے مگر کبھی اکیلے ہوتے نہیں تھے اور کسی کو مصیبت میںاکیلا چھوڑتے بھی نہیں تھے۔ دل توڑتے بھی نہیں تھے مگر کسی کو اتنا پراعتماد بھی نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہ کار سرکار میں مداخلت کرسکے۔ ایماندار تھے اور حیادار بھی۔”وضعدار ی “اور “بیگم بیزاری “پر کبھی سمجھوتہ نہ کرتے تھے۔ ایک سفر کے دوران جب ان کے ایک پسندیدہ جونیئر افسر کو خاتون خانہ نے ایک گھنٹے کے دورانیے میں تین مرتبہ فون کیا تو صاحب ضلع نے وارننگ دی ” اب اگر دوبارہ فون آیا اور تم نے سن بھی لیا تو گاڑی سے نکلو گے ، دفتر سے بھی اور میرے دل سے بھی۔”
دستر خوان کھلا تھا تو دست شفقت وسیع تر اور دست خیرات و سیع ترین۔ اکیلے کھانا نہ کھاتے تھے مگر اکیلے گاتے تھے۔ موسیقی کے شوقین تھے اور شاعری کے دلدادہ ۔ نماز خود بھی پڑھتے تھے ، قریبی دوستوں کو بھی ترغیب دیتے تھے۔ جس گھر یا دفتر میں مسجد نہیں ہوتی تھی وہاں مسجد ضرور بنواتے تھے۔ افطار اچھا کرواتے تھے تو بیس تراویح بھی پڑھواتے تھے ۔ بھائی نما لاڈلہ ماتحت اکثر شکایت کرتا ” آپ کے اتنے احسان ہیں کہ گننا چاہوں تو گن نہ سکوں ۔ آپ کا اتنا نمک کھایا ہے کہ کھیوڑہ کی سو کانیں بن سکتی ہیں۔ مگر جب سوچتا ہوں کہ چھ سال آپ کی خاطر بیس بیس تراویح روزانہ پڑھتارہا تو آپ کے احسان گننے کی خواہش کہیں تھک ہارکر سو جاتی ہے۔ مدتوں سر نہ اٹھاتی ہے۔ کبھی یاد بھی آتی ہے تو چپ لگ جاتی ہے۔ “
انگریزی سے پیار اور مشرقی اطوار ، ان کا خاصہ ہے۔ اتوار کو دن کا آغاز” ڈان” اخبار پڑھنے سے کرتے تھے تو ہفتہ کے باقی دن کئی “ڈان” ان کی وجہ سے” پڑھنے پے” جاتے تھے۔ کچھ کرنہ پاتے تھے۔ انتہائی اصول پسند تھے۔ قانون اور ضابطے کی مکمل پاسداری نہ صرف خود کرتے تھے بلکہ ماتحت افسران سے بھی کرواتے تھے۔ طبیعت روادار تھی مگر غیبت سننے کے کبھی روادار نہ ہوتے تھے۔ ایک دن ایک ماتحت افسر کو بلایا تو پتہ چلا کہ وہ ابھی دفتر نہیں آیا ۔ ساڑھے نو بجے کا وقت تھا ۔ ایک سٹاف افسر کہنے لگا ” وہ صاحب تو ساڑھے دس سے پہلے کبھی دفتر آتے ہی نہیں ۔ “اسے نصیحت کی” آپ بھی تو صبح نو بجے آ کر ، گیارہ بجے تک کوئی کام نہیں کرتے۔ گپ شپ، چائے اور اخبار بینی میں وقت صرف کرتے ہیں۔ اگر آپ کے کولیگ یہاں موجود ہوتے تو آپ کی بات صائب ہوتی۔ غیبت سے گریز اور چغل خوری سے پرہیز کرنے سے دفاتر کا ماحول خو ش گوار رہتا ہے”
خان صاحب کے اعلی اخلاق کو دیکھتے ہوئے ایک دن راقم الحروف نے سوال کیا “سر ۔ آپ کا اصلی نام کیا ہے، کس نے رکھا تھا” جواب ملا ” اصل نام محمد ہے ، جو دادا جی نے رکھا تھا ، باقی اضافہ خاندانی پس منظر کی وجہ سے ہے” مراسلہ نگار کہنے لگا” دادا حضور نے آپ پر بہت بڑا احسان کیا ۔ آپ نے جو عزت کمائی ہے شاید اسی نام کی برکت کے طفیل ہے۔ “
بچوں کے نام اچھے رکھنے چاہیئے ۔ نام اچھا اور کام بھی اچھا ہو تو دل مطمئن رہتا ہے۔ دنیا اور آخرت میں بھلائی ملتی ہے۔
خان صاحب کے اعلی آخلاق کے چند مزید قصے پھر کبھی سہی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos