اسٹیٹ بینک کی جانب سے کمرشل بینکوں کو اپنے صارفین کی کریڈٹ/ڈیبٹ کارڈ پر مبنی بین الاقوامی ادائیگیوں کو طے کرنے کے لیے انٹربینک مارکیٹ سے امریکی کرنسی خریدنے کی اجازت دینے کے ایک دن بعد اوپن مارکیٹ میں روپے نے ڈالر کے مقابلے میں 11.5 کی خاطر خواہ ریکوری کی ہے۔ ایک قلیل مدتی اقدام، جس کی میعاد 31 جولائی کو ختم ہو جائے گی اگر اس کو توسیع نہ دی گئی،اس اقدام کی وجہ سے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں شرح مبادلہ میں 27 روپے سے تقریباً 15 روپے تک کم کرنے میں مدد ملی ہے۔ اوپن مارکیٹ سے ڈالر کی خریداری پر بڑھتے ہوئے پریمیم نے حال ہی میں آئی ایم ایف کو حکومت کو ”غیر ملکی زرمبادلہ کی منڈی کے مناسب کام کی بحالی پر توجہ مرکوز کرنے“ کا مشورہ دینے پر مجبور کیا تھا۔ اس طرح یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ اس اقدام نے اپنا مقصد پورا کر دیا، اور اوپن مارکیٹ میں لوکل کرنسی کی قدر میں اضافے کے ساتھ اگلے چند دنوں میں شرح مبادلہ کا فرق مزید کم ہو سکتا ہے۔
مارکیٹ کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے انٹربینک ایکسچینج ریٹ پر مزید دباؤ پڑے گا کیونکہ کارڈ پر مبنی غیر ملکی لین دین کے تصفیے کے لیے زرمبادلہ کی زیادہ مانگ کی وجہ سے ڈالر کا اخراج بڑھ جائے گا۔ دوسروں کا اصرار ہے کہ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ کے درمیان فرق میں کمی بیرون ملک مقیم پاکستانی کارکنوں کے لیے بینکنگ چینلز کے ذریعے رقم بھیجنے اور نظام میں ڈالر کی لیکویڈیٹی کو بڑھانے کے لیے ایک ترغیب ثابت ہوگی۔ بظاہر، اسٹیٹ بینک کو بھی اس فیصلے کے ممکنہ اثرات کے بارے میں یقین نہیں ہے اور اس لیے اس نے ابتدائی طور پر صرف دو ماہ کے لیے انٹربینک مارکیٹ کے ذریعے ان لین دین کے تصفیے کی اجازت دی ہے۔ اس اقدام کی کامیابی کا انحصار زیادہ تر اس بات پر ہوگا کہ اسٹیٹ بینک اور کمرشل بینک ڈالر کے اخراج کو کم کرنے کے لیے ایک سال قبل درآمدات پر عائد پابندیوں کو روکنے کے لیے کارڈ کی ادائیگیوں کا پتہ لگانے اور اسے روکنے میں کتنے چوکس ہیں۔