ادارتی تجزیہ
حکومت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے افسران کو ٹیکس چوری کے شبہ میں گرفتاری کے اختیارات دینے کے فیصلے پر نظرِ ثانی کا آغاز کر دیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد کاروباری طبقے اور اراکینِ پارلیمنٹ کی جانب سے اُٹھائے گئے تحفظات کا ازالہ کرنا ہے، جنہوں نے ان اختیارات کو بلا جواز اور ممکنہ طور پر غلط استعمال کے مترادف قرار دیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اس معاملے پر ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کر دی ہے، جو ترمیم شدہ دفعات کا جائزہ لے کر ایسے حفاظتی اقدامات تجویز کرے گی جو اختیارات کے ممکنہ ناجائز استعمال کو روک سکیں۔
مالیاتی بل میں مجوزہ شق کے تحت، ایف بی آر کا کوئی ان لینڈ ریونیو افسر اگر تفتیش کے دوران یہ سمجھے کہ کسی فرد کا طرزِ عمل ٹیکس فراڈ یا قابلِ سزا جرم کے زمرے میں آتا ہے تو وہ کمشنر کی منظوری سے گرفتاری کر سکتا ہے۔ اس شق نے کاروباری برادری میں شدید بے چینی پیدا کر دی ہے، جو اسے اختیارات کا ناجائز استعمال قرار دے رہی ہے۔
پاکستان بزنس کونسل کے سربراہ احسان ملک نے وزیرِ خزانہ کو خط لکھ کر ان اختیارات کو ’سخت گیر‘ اور ٹیکس دہندگان کے لیے ’ہراساں کن‘ قرار دیا۔ تاہم، ایف بی آر کے چیئرمین محمود لانگریال کا مؤقف ہے کہ گرفتاری کا اختیار قانون میں پہلے سے موجود ہے، اور اب صرف اس کا طریقہ کار واضح کیا جا رہا ہے۔
مجوزہ ترامیم میں مزید احتیاطی تدابیر شامل کرنے پر غور ہو رہا ہے، جیسے کہ گرفتاری سے پہلے تین سینئر افسران کی منظوری، گرفتاری صرف غیرمعمولی نوعیت کے موارد میں، اور شفاف بیرونی نگرانی کا نظام۔ وزیراعظم نے واضح کیا ہے کہ قانون کے غلط استعمال سے ٹیکس دہندگان یا کاروباری طبقے کو ہراساں نہیں کیا جانا چاہیے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے بھی ان اختیارات پر اعتراضات اُٹھائے ہیں، جبکہ وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے یقین دہانی کرائی ہے کہ مشاورت کے بعد مناسب تبدیلیاں کی جائیں گی۔
یہ امر واضح ہے کہ ٹیکس نظام میں اصلاحات ناگزیر ہیں، مگر سختی کے ساتھ شفافیت، احتساب اور اعتماد کا توازن برقرار رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ بصورتِ دیگر، اعتماد بحال ہونے کے بجائے مزید زوال کا شکار ہو جائے گا۔