محمد زبیر
دنیا بھر میں تعلقات، بیانیوں اور طاقت کے توازن کی بنیاد محض ہتھیاروں یا معاہدوں پر نہیں بلکہ سچائی پر استوار ہوتی ہے — اگر اسے اختیار کیا جائے۔ مگر بدقسمتی سے آج کے عالمی منظرنامے میں سچائی ایک نایاب شے بن چکی ہے، جسے کمزور اقوام کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ جھوٹے بیانیے، مسخ شدہ حقائق اور جذباتی استحصال جیسے نفسیاتی حربے اب نہ صرف افراد کے درمیان بلکہ ریاستوں کی سطح پر بھی کارفرما ہیں۔
نفسیاتی اصطلاح میں ایسے عناصر کو “حقیقت بگاڑنے والے چالاک افراد” کہا جا سکتا ہے، جن کا مقصد سچ کو توڑ مروڑ کر اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے۔ ان کے ہتھکنڈوں میں ذہنی ابہام پیدا کرنا، جھوٹ بولنا، الزام دوسروں پر ڈالنا، اور جذباتی بلیک میلنگ جیسے حربے شامل ہوتے ہیں۔
یہی طرزِ فکر اگر ادارہ جاتی سطح پر سرایت کر جائے تو کرپشن، بداعتمادی اور ناانصافی کے در کھلتے ہیں۔ اور اگر یہی طریقۂ واردات بین الاقوامی تعلقات میں اپنایا جائے، تو پورا عالمی نظام جھوٹ کے تانے بانے میں الجھ کر غیر مستحکم ہو جاتا ہے۔
حال ہی میں بھارت نے پاکستان کے خلاف ایک منظم اور جھوٹ پر مبنی بیانیہ بنانے کی کوشش کی۔ بھارتی میڈیا اور سرکاری اداروں نے فرضی الزامات، جعلی اطلاعات اور اشتعال انگیز پروپیگنڈہ کے ذریعے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کا منصوبہ ترتیب دیا۔
تاہم پاکستان نے اس کا جواب جس حکمت، تدبر اور اخلاقی وقار کے ساتھ دیا، وہ قابلِ تحسین ہے۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے بروقت بریفنگز، مدلل موقف، اور شفاف معلومات کی فراہمی نے نہ صرف بھارتی بیانیے کی قلعی کھول دی بلکہ دنیا کو یہ پیغام دیا کہ سچ کو دلیل، تدبر اور استقلال سے اپنایا جائے تو جھوٹ خودبخود ماند پڑ جاتا ہے۔
یہ کوئی پہلی مثال نہیں۔ عراق پر امریکی حملے کی بنیاد بھی ایک جھوٹ تھا — ’’مہلک ہتھیار‘‘ — جو کبھی ملے ہی نہیں، مگر جب تک حقیقت سامنے آئی، تب تک لاکھوں جانیں ضائع ہو چکی تھیں۔
آج بھی فلسطین کے معاملے میں طاقتور ریاستیں جھوٹے بیانیے گھڑ کر مظلوم کو ظالم اور ظالم کو محافظ کے طور پر پیش کر رہی ہیں۔
ایسے میں سوال یہ ہے: کیا ہم جھوٹ کے اس عالمی کلچر کے خلاف کوئی متبادل دے سکتے ہیں؟
جواب ہے: ہاں، اور وہ متبادل سچائی ہے — اگر اسے صرف ایک اخلاقی قدر نہیں، بلکہ ایک حکمتِ عملی کے طور پر اپنایا جائے۔
فرد کی سطح پر، ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے افراد سے واضح حد بندی کریں جو ہمارے جذبات سے کھیل کر ہمیں ذہنی دباؤ میں مبتلا کرتے ہیں۔
اداروں کی سطح پر اخلاقی ضابطہ کار، شفاف احتساب، شکایات کے محفوظ راستے اور قیادت کے لیے اخلاقی تربیت ناگزیر ہے۔
ریاستی سطح پر سچائی کا بیانیہ ہی وہ اصل سرمایہ ہے جو کسی قوم کو باوقار بناتا ہے۔
پاکستان کا حالیہ طرزِ عمل ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ سچ بولنا نہ صرف ایک دینی فریضہ ہے بلکہ ایک عملی و سیاسی حکمتِ عملی بھی ہے۔ جھوٹ کے شور میں سچ کی آواز اگر مسلسل اور مدلل ہو تو وہ بالآخر سنی جاتی ہے۔ یہی سچائی قوموں کی عزت، اعتماد اور استقامت کی بنیاد بنتی ہے۔
لہٰذا وقت آ گیا ہے کہ ہم بطور فرد، ادارہ اور ریاست سچائی کو محض ایک اخلاقی نعرہ نہ سمجھیں بلکہ اسے پالیسی، تربیت اور قومی بیانیے کا حصہ بنائیں۔ کیونکہ سچائی ہی وہ آئینہ ہے جس میں نہ صرف دوسروں کا چہرہ بلکہ اپنا بھی اصل عکس دکھائی دیتا ہے — بشرطیکہ ہم اسے دیکھنے کا حوصلہ رکھیں۔