ادارتی تجزیہ
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سب سے سخت مزاحمت حزب اختلاف کے بجائے امریکی عدلیہ سے ملی ہے، جو ان کے غیر محدود صدارتی اختیارات کے خلاف سب سے مؤثر رکاوٹ بن کر ابھری ہے۔ حالیہ وفاقی عدالت کے فیصلے میں اُن عالمی محصولات کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے، جو ٹرمپ نے ہنگامی اختیارات کے تحت عائد کیے تھے۔ اگرچہ اپیل کورٹ نے عارضی ریلیف دے دیا ہے، لیکن قانونی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔
ٹرمپ انتظامیہ نے ان محصولات کو بار بار تبدیل کر کے عالمی منڈیوں میں غیر یقینی صورتحال پیدا کی۔ کبھی محصولات بڑھائے، کبھی معطل کیے اور کبھی کم کیے۔ اس غیر مستقل رویے نے سرمایہ کاروں کو پریشان اور تجارتی شراکت داروں کو الجھن میں مبتلا کر دیا۔
عدلیہ نے نہ صرف تجارتی پالیسیوں پر بلکہ دیگر کئی محاذوں پر بھی ٹرمپ کے احکامات کو روک دیا۔ اب تک ٹرمپ کی ۱۸۲ سے زائد ایگزیکٹو کارروائیاں عدالتوں میں چیلنج ہو چکی ہیں۔ امیگریشن، سرکاری اداروں کی بندش، فنڈنگ کی معطلی اور سرکاری ملازمین کی بڑے پیمانے پر برطرفیوں جیسے فیصلے عدالتوں نے منسوخ یا معطل کیے۔
ٹرمپ کی حکومت کا ایک اہم منصوبہ “ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ابهرهوری” تھا، جس کے تحت ہزاروں سرکاری ملازمین کو برطرف کیا گیا۔ عدالت نے اس منصوبے کو غیر قانونی قرار دیا اور اپیل کورٹ نے بھی فیصلے کو برقرار رکھا۔ ایلون مسک کی علیحدگی نے اس منصوبے کو مزید غیر یقینی بنا دیا۔
ٹرمپ کی پالیسیوں کا ہدف اعلیٰ تعلیمی ادارے بھی بنے، خصوصاً ہارورڈ یونیورسٹی، جس نے غیر ملکی طلبہ کے داخلے پر پابندیوں کے خلاف عدالت سے رجوع کیا اور کامیابی حاصل کی۔ عدالت نے حکومتی حکم نامہ روک کر غیر ملکی طلبہ کو تحفظ دیا۔
اگرچہ چند عدالتی فیصلے ٹرمپ کے حق میں بھی آئے ہیں، لیکن مجموعی طور پر عدلیہ ان کی من مانی کو روکنے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ عدالتی مزاحمت نے امریکی جمہوری اقدار اور قانون کی بالادستی کو محفوظ رکھنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔