اداریہ
ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ مشرق وسطیٰ کی تاریخ کے نازک ترین موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ اس تنازعے نے نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ایران، تمام تر داخلی چیلنجز اور بین الاقوامی دباؤ کے باوجود، مشرق وسطیٰ کا واحد خودمختار ملک ہے جو اسرائیل کی عسکری اور تزویراتی برتری کو چیلنج کر سکتا ہے۔
اگر تہران اس جنگ میں شکست کھاتا ہے—چاہے وہ عسکری، سیاسی یا ریاستی ڈھانچے کی صورت میں ہو—تو یہ اسرائیل کے لیے خطے میں بے لگام اثر و رسوخ کا دروازہ کھول دے گا۔ اگرچہ اسرائیل پہلے ہی بڑی حد تک سیاسی اور فوجی طاقت رکھتا ہے، مگر ایران کی موجودگی نے ہمیشہ ایک توازن برقرار رکھا ہے۔ ایران کی شکست صرف ایک ریاست کا نقصان نہیں بلکہ پورے خطے کے طاقت کے توازن کا بگاڑ ہے، جو عرب ممالک کو مزید غیرمحفوظ اور تقسیم شدہ بنا سکتا ہے۔
یہ مسئلہ فرقہ واریت یا نظریاتی ہم آہنگی کا نہیں، بلکہ خطے کی خودمختاری اور بقا کا ہے۔ عرب اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کو سمجھنا ہوگا کہ ایران کی استقامت دراصل اُن سب کے مفاد میں ہے۔ کسی ایک طاقت کو پورے خطے پر تسلط قائم کرنے دینا ایک ایسا سیاسی خلاء پیدا کرے گا جس سے انفرادی خودمختاری کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔
لہٰذا، عرب ممالک کو اپنی تاریخی تقسیم سے بالا تر ہو کر ایک تزویراتی مؤقف اختیار کرنا ہوگا۔ ایران کی حمایت دراصل خطے کی اجتماعی خودداری، وقار اور سلامتی کی ضمانت ہے۔ ایک متوازن اور چند قطبی مشرق وسطیٰ ہی سب کے لیے محفوظ اور پائیدار مستقبل کی ضمانت ہو سکتا ہے۔