یک سالہ ، سالا



“قدرت کے نظام انصاف پر یقین رکھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سالے کا بھی سالا ہوتا ہے۔
؎اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
سالا گرم مصالحہ بھی ہو سکتا ہے، گڑ گڑ گٹھالہ بھی ، پورے گھر والا بھی ، نصیب کا تالا بھی ، دیکھا بھا لا بھی ، نرالہ بھی ، متوالہ بھی ، غرض یہ کہ سالا کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن سالا کچھ بھی ہو ،سالا ہی ہوتا ہے۔عموماََ دیکھا گیا ہے کہ مختلف ممالک کے کلچر ایک دوسرے سے نہیں ملتے ۔ مگر سالا ایک ایسی بلا یا ایسا عذاب ہے، جس کی بابت پوری دنیا کی رائے خراب ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں کہا جاتا ہے “سالے کی دوستی پانی کے بلبلے جیسی” ایک اور دانشمند کا قول ہے ” سالا سسرال کا راکھا، ایک مظلوم رنڈوے کو کہنا پڑا “سالا دیکھ کر بیوی کی یا د تازہ ہوتی ہے” ہمارے بزرگ جانتے تھے اور مانتے تھے “سالا اجنبی کی طرح ہوتا ہے چاہے وہ اسی ملک ہو “۔

Pl, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com

ہسپانوی کہاوت ہے “سالا اور دولت دونوں سے دور رہنا ہی بہتر ہے “۔ ایک مشہور ہسپانوی دانشمند نے کہا “ہر سالا لگاتار سردیوں جیسا ،تنگ کرنے والا ہو تا ہے” ۔عرب دنیا کی کہاوت ہے “بیوی کا بھائی سایہ کی طرح ہے قریب آئے تو تنگ کرے ، دور ہو تو قطع ہو جائے “۔ ترک حضرات کہہ اٹھے “سالا یا تکلیف ہے یا جھگڑا ۔ مراٹھی کہاوت کچھ اس طرح ہے “سالا اور سانپ دونوں خطر ناک ہیں “۔ بنگالی کہتے ہیں “سالا اور لومڑی ایک ہی خاندان کے ہیں “۔ گجراتی جانتے ہیں ” سالا اور سانپ ایک جیسے ہیں ۔ ؎ کہاں تک سنو گے ، کہاں تک سناؤں؟ ۔ “حسرت صاحب اپنے بارے میں خود فرماتے ہیں کہ ان کی طبیعت طرفہ تماشہ ہے۔ طبیعت بھلے ان کی چار طرفہ تماشہ ہو، ان کی زندگی ہر شادی شدہ آدمی کی ز ندگی کی طرح یکطرفہ تماشہ تھی۔ برصغیر پاک وہند میں شادی شدہ آدمی کی زندگی کل بھی تماشہ تھی آج بھی تماشہ ہے اورآئندہ بھی تماشہ ہی رہے گی۔ غالب شادی شدہ تھے ٫انہیں بھی کہنا پڑا :-
؎ بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
” مغرب کی ترقی کا راز یک سالا یا زیرو سالا پولیسی پرسختی سے عملدرآمد میں ہے جبکہ ہماریے ہاں ابھی تک تعدد ازواج اور متعدد سالا ہائے کا رواج ہے۔ وہاں کوئی بھی سالا ایک سال سے زیادہ نہیں رہتا۔یورپ کے اکثر ممالک میں نہ کوئی بیوی ہوتی ہے نہ سالا ، سکھ چین کا ہوتا ہے بو ل بالا۔ کاش یہ سہولت ہمیں بھی میسر ہو۔ہمارے ہاں تو بندہ زندگی میں اور کوئی کام نہ کرے نہ کرے دوسری شادی ضرور کرتا ہے۔ جتنی شادیاں اتنے سالے اور حالات سیاہ ،کالے ، کوئی خود کو کہاں تک سنبھالے۔کسی بزرگ نے بجا فرمایا تھا:-؎
زوجہ تو اکلوتی ہی شافی ہے، کافی ہے
ساس سسر سالی سالا سب اضافی ہے
مگر دہر میں ملی کس کو معافی ہے
متعدد سالوں کا بہنوئی ہونا نہ قابل تلافی ہے
جب سیفی صاحب کو گزارش کی کہ درج بالا اشعار میں وزن نہیں تو فرمانے لگے ” اشعار میں وزن کہاں سے ہو جب میرا اپنا وزن نہیں رہ گیا۔ میرا اور میری گفتگو کا وزن تو سسرال والے لے گئے”۔ کہنے کو ہمارے ہاں ظالم سماج ہے، مہنگا اناج ہے مگروطن عزیز کےبعض علاقوں میں غریب ترین شخص کی کم از کم تین بیویاں اور تیرہ سالے ہیں ” میرے لوگ میرے دیکھے بھالے ہیں ۔
اردو کا محاورہ ہے کہ “ہر فرعون کے لئے اک موسی ضروری ہے”۔ وطن عزیز میں عوام کے لئے افسر خطرناک ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے افسر کی اگاڑی پچھاڑی، دونوں سے بچنا چاہیے۔ عوام کی تفریح کے لئے ہر افسر کا کم از کم ایک سالا ہوتا ہے ، جو بہت ہی نرالا ہوتا ہے ،جس کے قبضے میں عموما افسر کا ڈالا ہوتا ہے۔ افسر کی فرمائشیں پوری کرتے کرتے شہر بھرکی بس ہوجاتی ہے لیکن شہر والے نہیں جانتے کہ اکیلا سالا ایک اچھے خاصے آبادی والے ضلع سے بھاری ہوتا ہے ۔ سالاچین کی نیند سوتا ہے ، افسر خون کے آنسو روتا ہے ، تو ہی بتا سیفی ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
گئے دنوں کی بات ہے کہ ضلع ملتان سے ضلع جھنگ میں داخلی مقام پر آنے والے پہلے سٹاپ کو گندہ نالہ کہاجاتا تھا۔ ایک بزرگ جنہیں کہیں اور جانا تھا، مگر انہیں ثقل سماعت کا عارضہ لاحق تھا، جب انہوں نے کنڈکٹر کو پکارتے سنا کہ گندے نالے والے اتر جائیں تو وہ بھی اتر گئے۔ ادھر ادھر دیکھا تو معلوم ہوا کہ انہیں تو کہیں اور جانا تھا۔ پیدل چل کر اپنی منزل مقصود پر پہنچے تو ہلقان ہورہے تھے۔ بہن نے کہیں اور اتر جانے کی وجہ پوچھی تو نہایت معصومیت سے کہنے لگے ” کنڈیکٹر بار بار کہہ رہاتھا” گندے سالے والے” اتر جائیں ، میں اتر گیا ، مجھ سے گندے سالے بھلاکس کے ہیں؟
ایک افسر کو اپنے سالے سے شدید محبت تھی۔ محبت عشق میں بدل گئی. وجہ نہایت سادہ تھی. افسر کو چولستان کے علاقہ میں زمینوں سے متعلقہ ایک اہم زمہ داری دی گئی .سالا صاحب تشریف لائے اور ایک انتہائی معصومانہ سی فرمائش کی ۔ کہنے لگے ,”آج سے ستر سال پہلے ٹوانہ صاحب اسی کرسی پر بیٹھتے تھے ،جس پر آج آپ بیٹھے ہیں۔ دادا حضور کو انہوں نے بیس مربعہ زمین حق دوستی ادا کرتے ہوئے تحفتاََ پیش کی۔ داداحضور دوست پر اندھا اعتماد کرتے تھے. جانتے تھے کہ شریف آدمی کی زبان ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ کاغذات کے چکر میں بالکل نہیں پڑے۔ کبھی قبضہ بھی نہیں لیا۔ اب آپ کی یہاں پوسٹنگ ہوئی ہے تو خیال آیا کہ رقبے کی کاغزات بنوا لیئے جائیں ۔ آپ اتنا تو کر سکتے ہیں۔” افسر نے سالے کو گلے سے لگایا ‘ دستیاب بس پر بٹھایا ، اپنا ٹرانسفر کروایا ، جانے کیوں ظالم کہلوایا”۔
مندرجہ بالا خیالات سیفی صاحب کے ہیں. جی ہا ں! وہی سیفی صاحب جنہوں نے مشہور زمانہ مقالہ لکھ چھوڑا ہے “برصغیر کے مرد حضرات کی شخصیت سازی میں سالی اور قحط سالی کا کردار”۔ کالم نگار سیفی صاحب کے خیالات سے بالکل بھی متفق نہیں ، کیونکہ وہ جانتا ہے سیفی صاحب بھی مجموعہ تضادات ہیں ۔ علم و دانش کے دریا بہانے پر آئیں تو سقراط دوراں ثابت ہوں اور اگر زٹلیات پہ آئیں تو جعفر زٹلی کو بھی پیچھے چھوڑ دیں۔جی ہاں ! وہی جعفر زٹلی جو ایک شعر کی وجہ سے مارا گیا۔؎
سلطنت شاہ عالم
از دلی تا پالم
سیفی صاحب بھی لفظ سالا ،سالی اور سسرالیات کی بابت جو تحقیق بلکہ تحقیقا ت فرما رہے ہیں ، امید واثق ہے کہ ان کا انجام بھی جعفر زٹلی جیسا ہو گا۔زٹلی صاحب تو شہادت پا کر امر ہو گئے۔ سیفی صاحب کا تو شعر و شاعری سے اتنا ہی تعلق ہے کہ انہوں نے تمام مواقع ملنے کے باوجود شاعری نہیں کی۔ شاعری پہ احسان کا بدلہ نثر سے لے رہے ہیں۔ ہمارے آج کے کالم کا عنوان ان کے اسی مقالے کے ایک مضمون سے لیا گیا ہے۔ کالم نگار مضمون نگار کے کسی لفظ تو کیا کسی حرف سے بھی متفق نہیں مگر نقل کفر ،کفر نہ باشد کے مصادق ان کے خیالات عوام کی عدالت میں پیش کیے جا رہے ہیں تا کہ فیصلہ آپ خود کر سکیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos