
ڈاکٹرصاحب نہایت اعلیٰ درجے کے سرجن تھے۔ پیچیدہ آپریشن کرنے کے ماہر تھے۔ مہارت کا چرچا دور دور تک تھا۔سرکاری ہسپتال میں سرجری کے انچارج تھے اور میڈیکل کالج کے پرنسپل بھی تھے۔ بہت اُصول پرست تھے ۔غیرقانونی کام قطعاً نہ کرتے تھے۔ حسِ مزاح بھی کمال کی تھی۔ ایک دن ایک صاحب دفتر تشریف لائے اور ایسا کام کرنے کے لیے کہا جو ضابطے کے مطابق نہیں کیاجاسکتاتھا۔ سائل پہلے سلجھے ہوئے لہجے میں کام کرنے کی درخواست کرتے رہے۔مسلسل اصرار کرتے رہے۔ پرنسپل صاحب مسلسل انکار کرتے رہے۔صاحب غصے میں آ گئے۔دھمکانے لگے ”آپ مجھے جانتے نہیں۔ ہمارے علاقے میں ہماری مرضی کے بغیر چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔تمام بد معاش اور رسہ گیر میرے ڈیرے پہ ہوتے ہیں۔میرے بندوں نے کئی قتل کیے ہوئے ہیں”۔پرنسپل صاحب بڑے تحمل سے بات سنتے رہے۔نہایت دھیمے لہجے میں جواب دیا” میں سرجن ہوں اور سرجنوں کا استاد۔آپ ذرا اعدادو شمار چیک کریں کہ روزانہ دوران سرجری کتنے لوگ جان سے جاتے ہیں۔ میرے جونیئر ترین شاگرد کا سکور بھی آپ کے سینئر ترین بدمعاش سے زیادہ ہو گا۔ رہا میرا ذاتی سکور، وہ آپ کے تصور میں بھی آنے والا نہیں ہے۔یہ قتل کی باتیں کسی اور سے کیجیے گا۔ آپ ایک سرجن کے پاس آئے ہیں۔ ہمارے بارے میں ہی شاعر نے کہا تھا:-
“وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا”۔
ایک سری لنکن طالب علم طب کی تعلیم حاصل کرنے کے لیئےپاکستان آئے۔نشترمیڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔ ہم جماعت اورہم کمرہ دوست انتہائی خوش اخلاق ”جھنگوی“ تھے۔ جھنگوی صاحب نرم دل اور بذلہ سنج تھے ۔سری لنکن ڈاکٹر صاحب جھنگ والوں کی حسِ مزاح کے بہت قائل تھے۔ ایک دن گھائل بھی ہوگئے۔ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ہمارے سری لنکن دوست ناک، کان اور گلے کے علاج کے ماہر پروفیسر صاحب کے پاس زیر تربیت ہو گئے۔ پروفیسر صاحب کا پرائیویٹ ہسپتال بہت اعلی درجے کا تھا۔سری لنکن ڈاکٹر مستقبل میں اسی شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کاارادہ رکھتے تھے۔ دونوں دوست ابھی تک اکٹھے رہ رہے تھے۔ ایک دن سری لنکن ڈاکٹر صاحب ڈیوٹی سے واپس آئے تو بے تحاشاہنس رہے تھے۔ ہنسی قابو میں نہ آ رہی تھی۔ جھنگوی بھائی کے پوچھنے پر بتایا ”ہسپتال میں ڈاکٹر صاحب مریضوں کا حسب معمول معائنہ کررہے تھے۔ اردلی نے پکارا، “نمبرایک” ایک صاحب اٹھے اور پروفیسر صاحب کے کمرے میں چلے گئے۔وہ چیک کروا کے واپس نکلے تو اردلی پکارا، ” نمبر دو”۔ کوئی نہ اُٹھا۔ اس نے تین بار آواز لگائی مگر کوئی شخص نہ اُٹھا۔ اردلی نے پکارا،”نمبر تین” ایک صاحب اندر جانے ہی لگے تھے کہ جیسے بجلی چمکتی ہے، ایک صاحب لپکے اور ایک ہاتھ اردلی کے کندھے پر رکھا ، دوسرا اندر جانے والے صاحب کے کندھے پہ۔شدید غصے سے کہا ” نمبر دو تو میرا تھا۔ میرا چیک اپ ہوا نہیں ، کوئی اور کیسے چیک اپ کیلیےجا سکتا ہے؟“ اردلی نے وضاحت کی ”میں نے آپ کا نمبر پکارا، بار بار پکارا۔ آپ نہیں آئے تو میں نے آپ کے بعد والا نمبرپکارنا ہی تھا“۔مریض نے نہایت غصے اور افسوس سے جواب دیا ”اگر میرے کان ٹھیک ہوتے، مجھے صحیح سنائی دیتا تو مجھے جھنگ سے ملتان کاسفر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ عقلمند انسان! میں تو یہاں آیا ہی اپنی سماعت میں کمی کے نقص کاعلاج کروانے ہوں“۔سری لنکن بھائی جھنگ والوں کو آج تک نہیں بھولے۔
سینئرپروفیسر صاحب جونیئر ڈاکٹرز کے معیار سے غیر مطمئن تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے دور کے ڈاکٹرز زیادہ محنت کرتے تھے۔اب ڈاکٹرز اس درجے کی محنت نہیں کرتے۔ وہ خود اپنے شعبے میں ایک لیجنڈ کا درجہ رکھتے تھے۔ہزار ہا لوگ ان سے فیض یاب ہو چکے تھے۔تمام عمر خدمت خلق کرنے کے بعد ریٹائرمنٹ کے قریب تھے۔ ایک دن جونیئر ڈاکٹرز کو پڑھا رہے تھے۔کئی ہم عصر ڈاکٹر بھی موجود تھے۔ پڑھاتے پڑھاتے خاموش ہو گئے۔پڑھانا بند کردیا۔ ساتھی پروفیسر کو کہنے لگے ”پروفیسر صاحب آپ کو پتہ ہے ہم نے جلدی فوت ہوجانا ہے“۔ پروفیسر صاحب نے حیرت سے وجہ پوچھی تو کہنے لگے ”بڑھاپے میں ہمارا علاج ان نئے ڈاکٹروں نے کرنا ہے، ان کی قابلیت کا جوعالم ہے مجھے اپنے اور آپ کےزیادہ دیر زندہ رہنے کے امکانات نظر نہیں آتے۔“
ایک ڈاکٹر صاحبہ نہایت نرم دل تھیں۔ایک دن اُن کو ہسپتال کے باہر ایک گداگر ملا۔گداگرکہنے لگا”میری ماں بیمار ہے۔ قریب المرگ ہے۔دوائیاں خریدنے کیلئے پیسے بالکل نہ ہیں۔ پیسے دے دیں یا دوائی خریددیں“۔ ڈاکٹر صاحبہ نے نسخہ طلب کیا۔ نسخہ دیکھ کر ڈاکٹر صاحبہ حیران رہ گئیں۔ آنسوبہنے لگے۔ نسخہ مرحوم والد صاحب کا قلمی تھا۔ والد مرحوم بھی رحم دل ڈاکٹر تھے۔ کئی سال قبل وفات پاچکے تھے۔ڈاکٹر صاحبہ کو دلی خوشی ہوئی کہ والد مرحوم کا فیض ابھی تک جاری تھا۔
رحیم یارخان کے ایک ڈاکٹر صاحب اپنے شعبے کے ماہر تھے۔ اُن کا تعلق جٹ قبیلے سے تھا۔ کٹے ہوۓ ہاتھ جوڑنے میں ان کی مہارت عالمگیر شہرت رکھتی تھی۔ امریکہ چلے گئے۔ وہاں بھی اُن کی مہارت کا ہر کو ئی قائل ہو گیا ۔ ایک سکھ مریض وارڈ میں داخل کیا گیا۔ نہایت مہارت سے اُس کا علاج کیا اور ٹوٹی ہوئی ہڈیاں جوڑ دیں۔ مریض کے والد نے ڈاکٹر صاحب سے ملنے کی بہت ضد کی۔ کہنے لگا ”ہڈیاں توڑنے والے جٹ تو بہت دیکھے ہیں۔ ہر جگہ مل جاتے ہیں۔ ہڈیاں جوڑنے والا جٹ پہلی دفعہ ملا ہے۔”
ایک صاحب والدین کی خواہش پرڈاکٹر بنے۔ ذہنی طور پر مطمئن نہ تھے۔ میڈیکل کو نہایت قابل اورمحنتی لوگوں کا شعبہ سمجھتے تھے۔ مقابلے کاامتحان پاس کرکے انتظامی افسر بن گئے۔ ایک مقام پر تعیناتی کے دوران انہیں ایک انٹرویو کمیٹی کا ممبر بننے کا موقع ملا۔ کمیٹی نے مقامی ہسپتال کیلئے درخواست دینے والے ڈاکٹرز کے انٹرویو کرنے تھے۔ ایک امیدوار نے ہر سوال کا غلط جواب دیا۔ہمارے افسر اپنی کرسی سے کھڑے ہوۓ۔ اُمیدوار کو گلے لگایا۔مسرت بھرے لہجے میں کہا” آپ نے میرا ریکارڈ توڑ دیا۔میری سب سے بڑی خواہش پوری کردی اگرچہ میں مایوس ہو چکا تھا۔میرا یقین تھا کہ کوئی بھی ڈاکٹر میری طرح بتیس دانتوں میں زبان کی طرح نہیں رہ سکتا۔ کچھ نہ کچھ ضرور جانتا ہے۔آج آپ نے تسلی دلا دی کہ میرے جیسے دیوانے بہت ہیں۔مایوسی دور ہو گئی۔ آپ کے لئے سدا دعائیں۔ “
ریڈیالوجی کے پروفیسربہت کم گوتھے۔ کام کی بات کرتے تھے۔ بہت کم مسکراتے تھے۔ کسی نے کبھی اُن کوکھلکھلاکر ہنستے نہیں دیکھاتھا۔ نہایت شفیق انسان تھے مگر سنجیدہ رہتے تھے۔ ایک دن وہ اپنی ہنسی پر قابو نہ رکھ سکے۔تا دیر ہنستے رہے۔ پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔انتہائی رقت آمیز لہجے میں جونیئرڈاکٹرکو کہنے لگے ”سخاوت کی کوئی حد ہونی چاہیئے۔ آپ نے مریض کو وہ گردہ عنایت کردیا جو ایک سرجن دو سال پہلے نکال چکے تھے۔ آپ نے اُس گردے میں پتھریاں بھی ڈھونڈھ لیں۔ آپ بہت صاحبِ نظر ہیں۔ تھوڑا نظر کرم اپنی ذات پر بھی کرلیا کریں۔ الٹرساؤنڈ کرنے سے پہلے مریض کی دیگررپورٹس بھی دیکھ لیا کریں“۔
ایک میڈیکل کالج کے ہوسٹل میں طلبہ کینٹین سے کمرے میں چائے اوردیگرلوازمات منگواتے رہتے تھے۔ جب کسی طالب علم کے کھاتے میں ایک حد سے زیادہ ادھار ہوجاتا تو کینٹین والے روم سروس بند کردیتے۔ ایک صاحب کے ذمے کافی ادھار تھا۔ روم سروس کافی عرصہ سے بند تھی۔ وہ اپنے مہمان کے ساتھ کینٹین پرآئے۔ کینٹین کا عملہ مروتاًکچھ نہ کہہ سکا۔ جاتے ہوئے کہنے لگے ”پیسے میرے کھاتے میں لکھ دیں۔“ کینٹین کے مالک نے اُن کی بات نہایت تحمل سے سنی اور اپنے منیجر کو کہا ”یہ پیسے بھی کھوہ کھاتے میں لکھ چھوڑو۔“
ایک ڈاکٹر صاحب ایک ہسپتال میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تعینات ہوگئے۔ ہر وقت اپنے دفتر بیٹھے رہتے ۔ کسی وارڈ کا دورہ نہیں کرتے۔ مختلف امراض کے شعبہ جات کے سربراہان اس رویے کو بالکل پسند نہ کرتے تھے۔ بلا بلا کر تھک گئے مگر ہمارے ڈاکٹر صاحب کسی طرح ہسپتال کا دورہ کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ ایک دن میٹنگ کے دوران شعبہ میڈیکل کے سربراہ نے ایم ایس صاحب سے پوچھا ”آپ نے کب اور کہاں سے تعلیم حاصل کی؟“ ایم ایس صاحب کا جواب سن کر پروفیسر صاحب نے انتہائی حیرت سے کہا ”ہمارا کالج ایک ہے۔ ڈگری میں بھی دو ہی سال کا فرق ہے مگر نصاب میں زمین آسمان کا فرق ہے “۔ ایم ایس صاحب نے تفصیل پوچھی تو کہنے لگے ”لگتا ہے جب آپ تعلیم حاصل کررہے تھے تو کسی کتاب میں لکھا تھا کہ دورہ کرنے سے دورہ پڑجاتا ہے۔ یہ بات ہمارے نصا ب میں نہیں تھی“۔