تحریر: ڈاکٹر محمد کلیم
ڈاکٹر نے رپورٹ پڑھیں اور پروین کو اپنے آفس آنے کو کہا۔
ڈاکٹر صاحب۔ آپ نے مجھے کیوں بلایا خیر تو ہے۔ پروین نے عجلت میں پوچھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اسے بیٹھنے کو کہا۔
پروین مزید پریشان ہو گئی ڈاکٹر صاحب کچھ دیر بعد گویا ہوئے۔ پروین بہن بات یہ ہے کہ محمود کی ٹانگ میں تین گولیاں لگی تھیں۔ جو ہم نے نکال دیں لیکن رپورٹ کچھ منفی ہے۔
ساری ٹانگ میں انفیکشن پھیل گیا اگر ہم نے محمود کی ٹانگ نہ کاٹی تو خدانخواستہ انفیکشن سارے جسم میں پھیل جائے گا اور اس کی زندگی کو بھی خطرہ ہے۔ پروین نے روتے ہوئے کہا کہ محمود کی چھ بٹیاں ہیں اور وہ اکیلا کمانے والا ہے۔ کچھ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ معذوری سے بچ جائے۔
ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا ہم مزید دو دن آبزرویشن میں رکھ لیتے ہیں۔
پھر حتمی فیصلہ کریں گے۔ میں نے نرس کو کہہ دیا ہے اس نے محمود کو درد کا ٹیکہ لگا دیا ہو گا۔ تم اب جا کر آرام کو لو اور اللہ سے دعا کرو۔ پروین جب واپس کمرے میں آئی تو دیکھا محمود سو چکا ہے۔ پروین نے صبح سے پریشانی میں کچھ نہیں کھایا تھا۔ اس نے اپنے تھیلے میں سے بسکٹ نکالے جو اس نے جلدی میں آتے ہوئے رکھے تھے اور سوچنے لگی کہ محمود کے کتنے دوست ہیں جن کے ساتھ وہ سارا دن آوارگی کرتا ہے اور ان کے بہت سے کام بھی تھانہ، تحصیل اور کچہری سے کروا کے دیتا تھا۔
آج وہ لوگ گولی لگنے کے بعد محمود کو بے یارو مددگار ہسپتال چھوڑ گئے اور وہ اکیلی ڈاکٹر صاحب اور تھانے دار کے سوالوں کے جواب دے رہی ہے۔ اسے یاد آ رہا تھا کہ جب آج سے دس سال پہلے جب محمود کا رشتہ آیا تھا تو اس نے کتنی کوشش کی تھی اپنے والدین کو سمجھانے کی کہ محمود کتنا آوارہ ہے اور بدنام زمانہ ہے اور گاؤں کی ہر لڑائی میں سب سے آگے ہوتا ہے اور اس پر دو تین پرچے بھی کٹ چکے ہیں لیکن خاندان کے بڑوں کا کہنا تھا کہ یہ باتیں سب جھوٹی ہیں۔ پرچے بھی جھوٹے ہیں۔
محمود کی شدت درد سے آنکھ کھل گئی اس نے پروین کو آواز دی جو بھاگتی ہوئی آئی اور پوچھا کیا ہوا محمود نے کہا میری دائیں ٹانگ میں بہت درد ہو رہا ہے اور درد اتنا شدید ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ میں مر جاؤں گا۔ پروین نے دیکھا تو نرس اپنے کا ؤنٹر پر سو رہی تھی۔ پروین نے ہاتھ لگا کر اٹھایا تو نرس ناراض ہو گئی غصہ میں کہا کیا ہے پروین نے بتایا کہ مریض درد سے تڑپ رہا ہے اور اسے کچھ ہو نہ جائے۔ نرس نے غصہ میں کہا نہیں مرتا۔ تم چلو انجکشن لے کر آتی ہوں۔ نرس نے پن کلر کا انجکشن بھرا اور برنولا میں لگا دیا۔
تھوڑی دیر میں محمود دوبارہ اونگھ رہا تھا۔ پروین دوبارہ اپنی جگہ پر لیٹی تو نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور کھڑی تھی۔ ماضی کی یادیں اور مستقبل کی فکر نے نیند کو بے چینی میں تبدیل کر دیا تھا۔ اس کو یاد آ رہا تھا کہ دو دن پہلے جب چوہدری صاحب کے کہنے پر محمود زمین پر قبضہ کرنے جا رہا تھا تو اس نے اسے کتنا روکا تھا کہ یہ بڑے لوگوں کے معاملات ہیں اس میں محمود نہ پڑے تو محمود نے درشتی سے جواب دیا تھا کہ چوہدری صاحب کے اس پر بڑے احسانات ہیں۔ اور وہ نمک حلال ہے نمک حرام نہیں کہ ان کی مدد نہ کرے اور اپنا پستول سنبھالتے گھر سے باہر نکل گیا تھا۔ بعد میں اسے پتہ چلا تھا کہ وہاں لڑائی ہو گئی ہے اور محمود نے چوہدری جلال پر فائرنگ کی ہے لیکن وہ بال بال بچ گیا ہے اور گولی اس کی گاڑی میں لگی اس دن سے محمود گھر پر نہ آیا تھا لیکن جب گھر آ رہا تھا تو راستے میں چوہدری جلال نے فائرنگ کر کے محمود کو زخمی کر دیا۔ ماضی کے خیالات میں گم پروین کو دوبارہ نیند آ گئی۔ صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو ڈاکٹر صاحب راونڈ پر تھے۔ جب ڈاکٹر صاحب محمود کی رپورٹیں دیکھ رہے تھے۔ تو وہاں پہنچ گئی۔ ڈاکٹر صاحب سے بڑی امید سے پوچھا کیا محمود کی ٹانگ بچ جائے گی۔ ڈاکٹر نے جواب دیا ہم ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔
محمود کی بھی نیند کھل چکی تھی۔ محمود نے آنکھ کھلتے ہی پہلا سوال چوہدری صاحب کے بارے میں پوچھا؟
کیا وہ یا ان کا نمائندہ محمود کا حال پوچھنے آئے ہیں تو پروین نے جواب دیا کہ ابھی تک تو کوئی نہیں آیا۔ محمود کچھ پریشان ہو گیا تو پروین نے جواب دیا کہ بڑے لوگ ہیں مصروف ہوں گے آ جائیں گے جیسے ان کو معلوم ہو گا، محمود نے کہا ان کو معلوم تو ہو گا یہ شہر نہیں گاؤں ہے جہاں کوئی بات چھپ نہیں سکتی فوراً معلوم ہوجاتی ہے۔ پروین نے جواب دیا آپ پریشان نہ ہوں تو آپ ان کے خاص بندے ہیں وہ ضرور آپ کا خیال کریں گے۔
دوسرے دن ڈاکٹر صاحب نے دوبارہ رپورٹیں دیکھیں اور محمود کی ٹانگیں کاٹنے کا فیصلہ کر دیا اور محمود کو آپریشن تھیٹر لے گئے اور اس کی ٹانگ کاٹ دی پروین پریشان تھی کہ اب کیا ہو گا اس کی لمبی زندگی اور چھ بیٹیوں کا ساتھ اور شوہر کی معذوری کیسے چلے گا آنسو تھے کہ تھمتے نہ تھے لیکن اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ خود چوہدری صاحب کے پاس جائے گی اور مدد مانگے گی۔ یہ سوچ کر وہ مطمئن ہو گئی محمود ہوش میں آیا تو اس نے اپنے آپ کو بستر پر پایا۔
لیکن اسے ابھی تک معلوم نہ تھا کہ اس کی ٹانگ کٹ چکی ہے لیکن درد کی کمی نے اسے بہتر کر دیا تھا اس نے پروین سے دوبارہ پوچھا چوہدری صاحب آئے تو پروین نے جواب نفی میں دیا اور محمود کو پریشان نہ ہونے کی تلقین کی اور کہا کہ اللہ سے گناہوں کی معافی مانگے۔ محمود نے محسوس کیا اس میں کچھ کمی ہے اس نے ہاتھ لگایا تو اس کی دائیں ٹانگ کاٹی جا چکی تھی یہ پتہ چلا تو اس نے دھاڑنا اور رونا شروع کر دیا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا نرس نے اس کو دوبارہ نیند کا ٹیکہ لگا دیا اور وہ نیند کی وادی میں چلا گیا۔
پروین اگلے دن چوہدری صاحب کے گھر پہنچی اور ملازم کو اپنے آنے کا بتایا کچھ دیر بعد چوہدری صاحب کا ملازم آیا اس کے ہاتھ میں ہزار ہزار کے چند نوٹ تھے اس نے وہ نوٹ پروین کے ہاتھ میں تھمائے اور چوہدری صاحب کا پیغام دیا کہ آئندہ چوہدری صاحب سے رابطہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی کوٹھی پر آنے کی ضرورت ہے پروین نے بڑی منت کی کہ ایک دفعہ تو اسے چوہدری صاحب سے ملنے دیا جائے تو اس نے جواب دیا محمود نے جو بویا تھا وہ کاٹنا ہو گا چوہدری جلال تو ہمارے رشتے دار ہیں دوست ہیں ہماری ان سے کوئی دشمنی نہیں ہے بی بی۔ پروین جب کوٹھی سے نکلی تو پانچ ہزار ہزار کے نوٹ اس کے منہ چڑا رہے تھے اور وہ سوچ رہی تھی کہ محمود کی معذوری کی قیمت پانچ ہزار ہے۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.