طارق محمود اعوان
پاکستان میں سول سروس کو محض ایک پیشہ نہیں بلکہ ایک سماجی منزل سمجھا جاتا ہے۔ یہ مقام اتنا راسخ ہو چکا ہے کہ والدین اپنے بچوں کے لیے ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے بجائے بیوروکریٹ بننے کا خواب دیکھتے ہیں۔ کوچنگ سینٹرز نوجوانوں کے خوابوں اور بے قراری سے منافع کماتے ہیں، اور سماج بیوروکریٹ کو ایسا مقام دے دیتا ہے جیسے وہ کوئی افلاطونی حکمران ہو۔ لیکن اس مقام کے پیچھے جو خاموش زہر چھپا ہے، وہ ہے “دعوتوں کا دام” — ایک ایسی سماجی بدعنوانی جو بدتمیزی یا قانون شکنی کی صورت میں ظاہر نہیں ہوتی، بلکہ نرمی اور عزت افزائی کے پردے میں چپکے سے روح میں اتر جاتی ہے۔
سول افسران کی عوامی رسائی بلاشبہ اُن کی ذمہ داری کا حصہ ہے، لیکن یہی رسائی ان کی سب سے بڑی کمزوری بھی بن چکی ہے۔ افسران نہ صرف سرکاری دفاتر میں نظر آتے ہیں بلکہ سماجی تقریبات، نجی دعوتوں اور سیمینارز میں بھی شریک ہوتے ہیں، جہاں ان کے اردگرد اثر و رسوخ کے حامل افراد جمع ہوتے ہیں۔ یہی مقام انہیں “آسان ہدف” بنا دیتا ہے۔ اب براہِ راست رشوت دینے کی ضرورت نہیں، کیونکہ مہنگے ہوٹلوں کے کھانے، شام کی چائے اور دوستوں کی محفلیں، سب کچھ “نرم کرپشن” کی نئی زبان بن چکے ہیں۔ ایک دفعہ افسر اس ذائقے سے مانوس ہو جائے، تو پھر اصولوں کی تلخی برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
یہ دعوتیں نہ صرف ایک افسر کی آزادی پر حملہ کرتی ہیں، بلکہ ایک ادارے کی غیر جانبداری اور ساکھ کو بھی مجروح کرتی ہیں۔ سماجی حلقوں میں مشہور ہو جانا اب اہلیت کی علامت بن گیا ہے۔ نیا افسر پالیسی بریفنگ سے پہلے دعوتوں کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے۔ جو ان تقریبات سے گریز کرتا ہے، اسے “سماجی طور پر غیر فعال” قرار دے دیا جاتا ہے۔ گویا ایک افسر کا مقبول ہونا، غیر جانبدار ہونے سے زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں پورا نظام بگڑتا ہے۔ پالیسی سازی ذاتی تعلقات کی بنیاد پر ہونے لگتی ہے، اور فیصلہ سازی پر دوستی، تعریف اور تحفوں کا اثر غالب آ جاتا ہے۔
مزید برآں، یہ عمل اب ایک صنعت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ “سماجی رابطہ ساز” نامی افراد ایسی محفلوں کا بندوبست کرتے ہیں جہاں طاقت، سرمایہ اور شہرت کے حامل افراد افسران کے گرد جمع ہوتے ہیں۔ ان ملاقاتوں میں بظاہر خوش اخلاقی ہوتی ہے، لیکن درحقیقت ہر سلام، ہر ہاتھ ملانا، ہر تعارف، ایک سودے کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ یہ “نیٹ ورکنگ” نہیں، بلکہ “نیٹ ورک کا جال” ہے۔ اس جال میں جو ایک بار پھنس گیا، اس کا باہر جانا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔
سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اب سماجی طور پر قبول کیا جانے لگا ہے۔ معاشرہ ایسے افسر کو “کامیاب” مانتا ہے جس کے تعلقات وسیع ہوں، جو سرمایہ داروں کی محفلوں میں نظر آئے، اور جو میڈیا میں نمایاں ہو۔ جبکہ اصل افسر وہ ہے جو غیر جانبدار ہو، خاموشی سے قانون کی پاسداری کرے، اور اپنے فرائض بلا خوف و لالچ انجام دے۔ مگر بدقسمتی سے وہ افسر اب “ناکام”، “اجنبی” یا “ضدی” کہلاتا ہے۔
Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality podcasts:
ان حالات میں یہ انتہائی ضروری ہے کہ سول سروس خود احتسابی کا عمل شروع کرے۔ سب سے پہلے افسران کو “نہیں” کہنا سیکھنا ہوگا۔ سادگی اور اصول پسندی کو ترجیح دینا ہوگی۔ گھر سے لایا گیا ٹفن، مہنگے ہوٹل کے کھانے سے کہیں زیادہ عزت والا ہے — اگر وہ ضمیر کا بوجھ نہ لادے۔ افسر کو اپنے وقار اور آزادی کی قیمت کبھی بھی کڑاہی، اسٹیک یا قورمہ سے کم نہیں لگانی چاہیے۔ اسے یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر دعوت، ایک ذمہ داری کی بنیاد رکھتی ہے، اور ہر لقمہ، غیر جانبداری کی دیوار میں ایک دراڑ پیدا کرتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی اداروں کو اخلاقی ضابطے مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے، جن میں سماجی میل جول، مہمان نوازی قبول کرنے، اور تقریبات میں شرکت کے حوالے سے واضح رہنما اصول دیے جائیں۔ شفافیت صرف مالی گوشواروں کی حد تک نہیں ہونی چاہیے بلکہ افسر کے طرزِ زندگی، ترجیحات اور سماجی حدود میں بھی ہو۔ اور اس شفافیت کی قیادت سینئر افسران کو کرنا ہوگی، جو اگر خود رئیل اسٹیٹ ٹائیکونز کے ساتھ بیٹھکیں کریں گے تو نوجوان افسر کہاں راستہ ڈھونڈیں گے؟
آخر میں، یہ یاد رکھنا لازم ہے کہ ایک بیوروکریٹ کی سب سے بڑی طاقت اس کی آزادی، غیر جانبداری اور ضمیر ہے۔ اگر وہ ان اصولوں کی قیمت محض چانپ ، بٹیر اور پودینے کے شربت سے چکاتا ہے، تو یہ نہ صرف اس کی ذاتی ناکامی ہے بلکہ پوری ریاستی مشینری کی بے توقیری ہے۔ لہٰذا، ہر سول افسر کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ محفلوں میں مقبول ہونا چاہتا ہے یا اداروں میں باوقار۔ کیونکہ ریاست کا بوجھ وہی افسر اٹھا سکتا ہے جو اپنے رزق کا بوجھ خود اٹھانے کی ہمت رکھتا ہو۔