
کہتے ہیں کہ مُلا نصیر الدین کے ایک پڑوسی ملا کی ضرورت کا خیال کیئے بغیر وقت بے وقت اُن کا اکلوتا گدھا مانگ کر لے جاتے تھے اور کئی کئی دن واپس نہیں کرتے تھے ۔ بارہا تقاضا کرنے کے بعد واپس کرتے تھے ۔ ملا اُن کی اس عادت سے بہت تنگ آچکے تھے ایک دن جب پڑوسی گدھا مانگنے آیا توملا نے کہا آج گدھا یہاں نہیں ہے، کہیں گیا ہوا ہے۔ اتفاق سے اُسی وقت گدھے کی ڈینچوں ڈینچوں کرنے کی آواز آنے لگی ۔ پڑوسی کہنے لگا گدھےکی تو آواز آرہی ہے، گدھا تو اندر ہی ہے۔ ملانے جل کر کہا اندر نہیں، گدھا باہر ہی ہے اور میرے سامنے کھڑا ہے ۔ ملا مزید فرمانے لگے کہ اصل گدھے تو آپ ہیں جو ایک معقول انسان کی مدلل بات کا اعتبار نہیں کر رہے اور گدھے کی ڈینچوں ڈینچوں کو لے کر بحث کر رہے ہیں ۔ گدھے پر اعتبار کرنے کی علت اور معقول انسان پر اعتبار نہ کرنے کی عادت اس تناظر میں بہت یاد آئی جب سوشل میڈیا پر کسی نے جھوٹی اور عقل و شعور سے عاری پوسٹ لگا دی کہ جو لوگ” کو رونا “کی ویکسین لگوا رہے ہیں وہ دو سال کے اندر اندر مر جائیں گے۔ بہت سارے لوگ اس پوسٹ پر جیسے ایمان لے آئے اور انہوں نے اس کی تبلیغ اور تشہیر شروع کردی۔ نیت اُن کی بہت اچھی تھی مگر نیم حکیم ہمیشہ خطرہ جان ہی ہوتا ہے اس لیے لوگ ویکسی نیشن کروانے سے گریزاں نظر آنے لگے۔مایوسی کا ایک عجیب عالم ہر طرف نظر آنے لگا۔ ایسے تمام افراد کو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ وہ بچپن میں کئی طرح کی ویکسین لگوا چکے ہیں ۔ اتنی ساری ویکسین لگوانے سے اتنے سال الحمد اللہ اگر کسی کو کچھ نہیں ہوا تو “کورونا” کی ویکسین سے مرنے کی کیا سائنسی یا غیر سائنسی وجہ ہو سکتی ہے۔ پوری پوسٹ کچھ اس طرح ہونی چاہیے تھی کہ “کو رونا” ویکسین لگوانے والے دو سال کے بعد کبھی مریں گے اور ویکسین نہ لگوانے والےشاید دو گھڑی بھی نہ جی سکیں۔ ہماری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ تمام دنیا کے انسان ہرطرح کی وباء اور ذہنی ابتلاء سے بھی محفوظ رہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم مایوسی سے خود بھی محفوظ رہیں اور دوسروں کو بھی محفوظ رکھیں ۔ یہ بجا ہےکہ افواہ کے پاؤں نہیں ہوتے مگر تیسری دنیا میں اُس کے گاؤں کے گاؤں ہوتے ہیں بلکہ اب تو شہر کے شہر بھی ہونے لگ گئے ہیں ۔
جہاں سب لوگ کسی بھی محیر العقل بات پر یقین کر کے سچ کو محض گمان سمجھ تے ہیں۔ سچ بولنے والے کو جھوٹا انسان سمجھتے ہیں۔ حقیقت کو بہتان سمجھتے ہیں۔ قطرے کو طوفان سمجھتے ہیں۔ پستی کو اُٹھان سمجھتے ہیں۔ سب کو انجان اور خود کو پر دھان سمجھتے ہیں۔ ایسے تمام لوگوں کو ، وہ خود کو بھلے کچھ بھی سمجھیں، عقل مند لوگ اُن کو گدھاسجھتے ہیں۔ گدھا اُن جانوروں میں سے ایک ہے جن کو انسان نے شروع میں ہی پالتو بنالیا اور آج تک پالتو ہی بنایا ہوا ہے فالتو نہیں۔ میرے خیال میں جدید انسان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم جانوروں کو پالتو بناتے جا رہے ہیں اور اپنے ہم جنسوں کو فالتو کرتے جارہے ہیں۔ ہم وہیل مچھلی کو سدھا رہے ہیں اور غریب انسانوں کو اُڑا رہے ہیں۔ ہمیں جانوروں سے اتنی محبت ہے کہ اپنے ہم جنسوں کیلئے اکثر اوقات ہمارے اندر کا جانور باہر آجاتا ہے۔ انسان اور گدھے کا رشتہ بہت پرانا ہے ۔ انسان نے گدھے سے زیادہ سبق حاصل کیا ہے یا گدھے نے انسان کی صحبت سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے، یہ قابل بحث بات ہے۔ مگر ہم یہاں اس بحث سے صرف نظر کرتے ہوئے یہ کہیں گے کہ بعض اوقات انسان رشتہ نبھانے میں گدھے پن سے کام لیتا ہے جبکہ اکثر گدھے رشتہ نبھاتے ہوئے اعلیٰ انسانی اقدار کا خیال رکھتے ہیں ۔اسی لیئے کچھ لوگوں نے بھی آج کے دور میں رشتہ نبھانے والوں کو گدھا سمجھنا شر وع کر دیا ہے اور وہ اُن کی عزت بھی اُتنی ہی کرتےہیں جتنی عزت ہمارے ہاں گدھوں کی ہے۔ بعض گدھے ساری زندگی بڑے پن سے گزار دیتے ہیں ۔ تو بعض انسان ساری زندگی گدھے پن سے گزار دیتے ہیں۔ کسی گدھے پر دوسرے گدھے نے کبھی شک نہیں کیا کہ وہ انسان ہے۔ مگر انسان اتنا شکی مزاج ہے کہ وہ اپنے علاوہ ہر کسی کو گدھا سمجھتا ہے اور بعض اوقات اُس کے علاوہ سب اُس کو بھی گدھا سمجھتے ہیں۔
انسانی معاشرے کی ابتدا سے ہی عیاراور مکار لوگ ، دوسروں کے گدھا پن سے فائدہ اٹھانے کیلئے بےتاب رہتے ہیں۔ ایک آدمی دیدہ ودانستہ طور پر ایسی حرکت کرتا ہے جس سے باقی لوگ نا دانستہ طور پر گدھے بن جاتے ہیں اور پھر دانستہ طور پر بھی گدھا بننے میں اُن کو مزا آنے لگتا ہے۔ میکیا ولی اور چانکیہ کے نظریات سے متاثر لوگ ساری زندگی دوسروں کو گدھا بنانے کے چکر میں رہتے ہیں۔ اسی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر سیاسیات کا کہنا ہے کہ ہر انسان کے اندر ایک گدھا پن ہوتا ہے ۔ جو لوگ اپنے گدھا پن پہ قابو پانا اور دوسروں کےگدھا پن سے فائدہ اٹھانا سیکھ لیتے ہیں، وہی کامیاب ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی کامیابی پر خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں اور نعرے لگا نا شروع کر دیتے ہیں۔
“یہی تو ہے وہ اپنا پن، یہی تو ہے وہ اپنا پن”