آئی ایم ایف اور اسٹیٹ بینک کے بینچ ریٹ میں اضافہ

اسٹیٹ بینک نےاپنے بینچ مارک ریٹ کو 300 بی پی ایس  سےبڑھا کر 20فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ 1996 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے، اس طرح کا فیصلہ اور اقدامات کوئی انہونی نہیں ، آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے ان وعدوں کی تکمیل ضروری ہے۔

حکومت نے پیر کے روز صحافیوں کو بریفنگ کے دوران ایسے  اقدامات کرنے کا اشارہ دیا تھا۔اس کے ایک دن بعدہی ، پاور سیکٹر کے قرضوں کی مالی اعانت کے لیے بجلی کے بلوں پر سرچارج کا اعلان کیا گیا، کیونکہ اسٹیٹ بینک نے جنوری میں روپے کی قدر میں کمی کی اجازت دینے کے بعد خاموشی سے شرح مبادلہ پر عائد پابندیوں کو ہٹا دیا تھا تاکہ آئی ایم ایف مشن کے ساتھ رکے ہوئے پروگرام کے جائزے پر بات چیت دوبارہ شروع ہونے کے لیے راہ ہموار ہو سکے۔

یہ اقدامات مالیاتی ایڈجسٹمنٹ  جیسے بشمول معیاری کھپت، ٹیکس کی شرح اور ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ، بجلی ریلیف میں کمی اور بجٹ خسارے کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے کیے گئےہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کی مدد کے بغیر اپنے توازن ادائیگی کے بحران پر قابو نہیں پا سکتا۔ اس کے باوجود جب سے اسحاق ڈار نے وزارت خزانہ کی باگ دوڑ سنبھالی ہے، پاکستان میں فنڈ نہیں آرہے ہیں۔

اسحاق  ڈار گزشتہ موسم گرما میں اپنے پیشرو کے دستخط کردہ پروگرام کے راستے سے ہٹتے رہے۔ ان کا  حد سے زیادہ اعتماد کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ  ضروری نہیں،  وہ دوست ممالک سے کافی مالی اعانت حاصل کر لیں گے غلط ثابت ہوا۔ صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ عملے کی سطح کے معاہدے کو حتمی شکل دینے سے پہلے ہی گزشتہ ماہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے اقدامات سےوزیر خزانہ  پھر پیچھے ہٹ گئے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اسحاق  ڈار کے پچھلے پانچ مہینوں میں کیے گئے اقدامات نے عوام اور معیشت پر کافی بوجھ ڈال دیا ہے ۔ اشیاء و خوردونوش کی قیمتوں میں 31.5 فیصد اضافہ ہوا ہے اور کرنسی کی قدر میں زبردست گراوٹ کی وجہ سے مزید اضافے کا امکان ہے۔ گزشتہ دو دنوں میں انٹربینک میں روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 9فیصد سے زیادہ گرا ہے ۔ریلیف کے خاتمے اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے کارخانے بند ہورہے ہیں، بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مزید صنعتی بندش کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

بیرونی محاذ پر، بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کو ڈاؤن گریڈ کر دیا ہے ، ملک کے ڈالر بانڈ ہولڈرز کم ہیں اور بیرونی  قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے ذخائربہت کم ہیں جس سے ڈیفالٹ کا خطرہ برقرار ہے۔ آئی ایم ایف بھی بورڈ کے بغیر کوئی بڑا قدم اٹھانے کو تیار نہیں۔

جیسا کہ اسٹیٹ بینک کی طرف سے نشاندہی کی گئی ہےکہ آئی ایم ایف کے فنڈنگ ​​پروگرام کے تحت جاری جائزے کا ابتدائی نتیجہ ”قریب مدتی بیرونی شعبے کے چیلنجوں سے نمٹنے“ کے لیے اہم ہے۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے حکومت اور اس کے چیف فنانس منیجر کو اپنی انا کو ایک طرف رکھنا ہوگا۔ ہو سکتا ہے ان کے پاس کوئی اور آپشن نہ ہو۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos