وہ میری نصف بہتر تو ہیں مگر


اُردو زبان کے ارتقائی ادوار سے بیوی کو نصف بہتر بھی کہا جا رہا ہے۔ بعض لوگوں کے نظر یہ ارتقا کے انکار کی واحد وجہ بھی یہی ہے۔ پوری بیگم کو نصف بہتر کیوں کہا جانے لگا؟ یہ رواج ہے یا بد عت ، ہم نہیں جانتے ۔ میرے خیال میں جنہوں نے پہلی دفعہ کہا ہوگا وہ خود بھی نہیں جانتے ہوں گے۔

آپ لوگوں نے اس بابت مختلف نظریات قائم کر لیئے ہیں۔ ہر شخص اپنی پسند کے نظریے پر قائم ہے ۔ خوا تین ان نظریات سے اختلاف کرتی ہیں اور اس بار ے میں بات کرنا پسند نہیں کرتیں۔ ایک صاحب ! ایک خاتون کو کہنے لگے کہ مرد اور گھوڑا کبھی بوڑھےنہیں ہوتے“۔ خاتون نے جواب دیا یہ مرد اور گھوڑ ے کی آپس کی بات ہے اور آپس میں ہی رہتی تو اچھا تھا۔ ایسی باتوں کے باہر آنے سے بڑی رسوائی ہوتی ہے۔ اس بات سے مرد اور گھوڑے کے علاوہ کسی اور کا متفق ہونا ضروری بھی نہیں ہے اور حقیقت میں تو اس بات سے اب مرد اور گھوڑا خود بھی متفق نہیں ہیں۔

Pl, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com

خاتون خانہ کو نصف بہتر“ کہنے کی وجہ تسمیہ کے بارے میں نظریات سے بھی کسی کا متفق ہو نا ضروری نہیں ہے اور بجا ہے کہ ایک نظریے والا شخص دوسرا نظریے والے شخص سے عام طور پر متفق ہوتا بھی نہیں ہے۔

ایک نظر یہ اس بابت یہ ہے کہ اس زمانے میں بزرگوں سے ان کے کسی کام کی وجہ کوئی نہیں پوچھ سکتا تھا تویہ کیسے پوچھ سکتا تھا کہ آپ بیگم کو نصف بہتر کیوں کہہ رہے ہیں ۔ کافی عرصہ پہلے ایک انجینئر نگ یونیورسٹی میں ایک طالب علم کا زبانی امتحان بہت اچھا ہوا مگر اس کو فیل کر دیا گیا۔ و جہ پوچھنے پر استاد نے بتایا کہ کسی نہ کسی کو تو فیل کرناہی تھا سو تمہیں فیل کر دیا۔ اب یہ پوچھنے کا کیا مطلب کہ کیوں کر دیا ۔

اسی طرح بیوی کو کچھ نہ کچھ کہنا تھا تو نصف بہتر کہہ دیا گیا۔ بعض بزرگوں کا کام ہر وقت کچھ نہ کچھ کہنا تھا سو انہوں نے کہہ دیا۔ بڑوں نے جو کہہ دیا سو کہہ دیا۔ ان کے کہے کو حرف آخر سمجھ کر اس کا احترام کرنا چاہیے ۔


اس سلسلے میں کوئی نئی اختراع نہیں کرنی چاہیے ۔ میرے خیال میں ایسی باتوں کے معنی اور مطالب تلاش کرنے بھی نہیں چا ہیں کیونکہ عقلمند پہلے ہی حقیقت بتا گئے ہیں کہ ” کچھ بڑھا بھی دیتے ہیں زیب داستان کیلئے”۔ ایک محقق دور کی کوڑی لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ گذشتہ زما نے میں نصف بیویاں حقیقت ا بہتر ہوتی تھیں۔ مرد حضر ات کو عموماً اس حقیقت کا پتہ چوتھی شادی، چوتھی بار کر نے کے بعد چلتا تھا۔

Pl, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com

جب حضرات کافی تجربہ حاصل کر چکتے تھے تو اُن کو یہ گیان حاصل ہو جاتا تھا کہ بیویوں کا تعداد میں نصف ہونا کتنا بہتر ہے۔ ایسے کئی افراد مصلے پر بیٹھے ورد کرتے رہتے تھے یا دُعا مانگتے ر ہتے تھے۔ اُن کے دل کی حقیقت تو اللہ ہی جانتا ہے سنائی بس یہ دیتا تھا نصف بہتر ، نصف بہتر اس طر ح رفتہ رفتہ یہ لفظ سب کے دل کی آواز بن گیا۔

ہمار ے دیہی علاقوں میں ایک قدیم رواج چلا آ رہا ہے کہ زمین خاندان میں رکھنے کیلئے یا کسی اور وجہ سے ایک نو عمر لڑکے کی شادی پختہ عمر کی خاتون کے ساتھ کر دی جاتی ہے۔ ایک زمیندار بھائی کی شادی نو عمر ی کے آغاز میں ایک ایسی خاتون سے کر دی گئی تھی جو بہر حال اُن کی والدہ سے دو برس چھوٹی تھیں۔ یہ زمیندار بھائی پھر بھی ہر وقت مصلے پر بیٹھے آسمان تکتے رہتے تھے اور نصف بہتر ، نصف بہتر“ کا ورد کر تے رہتے تھے۔ شروع میں یہ ا کیلے تھے پھر ان کے ساتھ لوگ شامل ہوتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔

اُ س علاقے کے سب لوگ جانتے تھے کہ نصف بہتر، نصف بہتر سے مراد عمر ہے۔ اس طرح یہ لفظ رفتہ رفتہ زبان زدعام ہو گیا۔ بعد کے لوگ اس کی وجہ تسمیہ بھول گئے علم نجوم پر حد سے زیادہ یقین رکھنے وا لے محقق حضرات یہ کہتے ہیں کہ بزرگوں کو پہلے ہی پتہ تھا کہ ایک دور ایسا آئے گا کہ جب شادی کے بعد خواتین کا پھیلاؤ اتنا زیادہ ہو جائے گا کہ اگر وہ ا پنے آپ سے نصف بھی ہوں تو بہتر ہے۔ اس لیئے آئندہ دور کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ” نصف بہتر “ کا لفظ وجود میں آیا۔ خواتین بہر حال علم نجوم کی اس شاخ سے قطعا کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں، اس کو غیر اسلامی اور غیر انسانی سمجھتی ہیں۔


ایک صاحب جن کا قد بھی چھوٹا سا ہے اور وہ ہیں بھی انتہائی دبلے پلتے لاغر سے۔ ان کی بیوی مگر بڑی لیم شیم اور قد آور خاتون ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ نصف بہتر کا مطلب ہے کہ بیوی کا قد اور وزن شوہر سے نصف ہونا چاہیے۔ مگر “مدعی لاکھ بُرا چاہے ، کیا ہوتا ہے۔ وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے” ۔ ایک اور صاحب جو دینی ذہن رکھتے ہیں ، اُن کا کہنا یہ ہے کہ بیوی کو نصف بہتر کہنے وا لے ہمارے اسلاف مذہبی خیالات کے حامل تھے اُن کا اصل مدعا یہ تھا بیوی ایک ہو تو ” نصف بہتر “ ، دو ہوں تو بہتر ، تین ہوں تو بہت بہتر اور چار ہوں تو بہترین ۔

ایسے تمام افراد اپنے معاشرے میں اسلا می اقدار کے فقدان کا رونا روتے رہتے ہیں اور اسی دکھ میں ایک دن اس یقین کے ساتھ دنیا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں کہ جنت میں مومن کے پاس نصف بہتر نہیں بلکہ مکمل بہتر ازدواج ہوگی جواُ س کی مکمل تا بعد ا ر اور پوری فرماں بردار ہوں گی اور ایک سخت لفظ تک نہ بولیں گی۔ غالب اگر چه مرد حضرات کے ساتھ جنت میں بھی ازدواج کے سلو ک کے بارے میں کوئی اتنے خوش گمان نہیں تھے۔وہ یہ کہتے تھے اُن کو حقیقت معلوم ہے جو کہ صرف دل کا بہلا وا ہے۔ بعض خواتین اپنے شوہر حضرات کے ساتھ جو سلوک کرتی ہیں اس سے ان کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ اس کا نصف ہی بہتر ہے۔

آپ کو پتہ ہے کہ ہمارے ہاں سالی کو آدھی گھر والی کہا جاتا ہے ۔ بیگمات کا اس بات پر اجماع ہے کہ خیال رکھنے سے مرد حضرات کی تربیت صحیح نہیں ہوتی ۔ اُن کا اخلاق اور کردار بگڑ جاتا ہے اس لیئے وہ شوہر کو نوالہ جیسا بھی کھلائیں ، دیکھ تی شیر کی آنکھ سے ہیں۔تاریخ پر نظر رکھنے والی چند بیگمات کا کہنا ہے کہ پُرانے دور میں سختیاں جھیلنے کی عادت مرد حضرات کو گھر سے ڈالی جاتی تھیں اس لیئے وہ بہتر تھے۔

آج کے مردوں کے نخرے ختم نہیں ہوتے تو اُمت مسلمہ کا حال بھی سب کے سامنے ہے۔بیوی کو نصف بہتر کہنے والے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ بیوی کو کچھ نہیں کہا جاسکتا۔نصف تو بالکل نہیں کہا جا سکتا اور بعض اوقات بہتر کہنا بھی شدید نا انصافی ہے۔ بیوی کو اگر کچھ کہنے کی کوئی ناگز یر مجبوری آن پڑے تو اس کا نصف کہنا ہی بہتر ہے۔ بیوی کو منہ پر نصف بہتر کہنے والے بعد میں ہمیشہ یہ حسرت بتاتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ کاش اُن کی زندگی نصف ہوتی اور وہ شادی کی عمر سے پہلے ہی خلد آشیانی ہو جاتے ۔ یہ اُن کیلئے بہتر ہوتا۔

ایک صا حب اپنی نصف بہتر کی قبر پر بیٹھے زار و قطار رو رہے تھے اور کہے جارہے تھے ” آنسو تمہیں واپس نہیں لا سکتے ، اسی لیے روتا ہوں“۔ “اسی لیئے“ کہتے ہوئے اُن کی آواز بہت بلند ہو جاتی تھی اور فقرے کا سارا زور “اسی لیئے” پر تھا۔ بعض شوہر حضرات بیوی کو بھی ” نصف بہتر “ ایسے کہتے ہیں کہ لگتا ہے التجا کر رہے ہیں جتنے بہتر وہ ہیں اس سے نصف بہتر تو اُن کی بیگم بھی ہو جائے ۔ بسا آرزو کہ خاک شد بندہ جیسے ” نصف بہتر سمجھتا ہے وہ بندے کو پورا بدتر سمجھتی ہے اس بابت آپ کا تجربہ کیا کہتا ہے؟

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos