نئی دہلی: بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے جمعرات کو کہا کہ پاکستان کو اُن دریاؤں سے پانی نہیں دیا جائے گا جن پر بھارت کا حق بنتا ہے۔ یہ بیان اُس وقت سامنے آیا ہے جب بھارت نے گزشتہ ماہ ایک حملے کے بعد پاکستان کے ساتھ پانی کی تقسیم کا ایک اہم معاہدہ معطل کر دیا تھا۔
یہ معاہدہ، جسے 1960 میں عالمی بینک کی مدد سے طے کیا گیا تھا، سندھ طاس معاہدہ کہلاتا ہے۔ بھارت نے 22 اپریل کو بھارت کے زیرِقبضہ جموں و کشمیر میں ایک حملے کے بعد یہ معاہدہ معطل کیا۔ اس واقعے میں 26 افراد مارے گئے، جن میں زیادہ تر ہندو سیاح تھے۔
بھارتی سینیٹ کی ایک کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ اس معاہدے کو معطل کرنے کا مقصد پاکستان کی زراعت کو نقصان پہنچانا ہے۔
بھارت کا الزام ہے کہ اس حملے کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے، تاہم پاکستان نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔ اس واقعے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا، لیکن 10 مئی کو فائر بندی پر اتفاق ہو گیا۔
راجستھان میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا
“پاکستان کو ہر دہشت گرد حملے کی قیمت چکانا ہوگی، چاہے وہ قیمت اس کی فوج کو ادا کرنی پڑے یا معیشت کو۔”
سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کی زرعی زمینوں کو پانی اُن دریاؤں سے ملتا ہے جو بھارت سے آتے ہیں، اور یہ پانی پاکستان کی تقریباً 80 فیصد زراعت کے لیے ضروری ہے۔ تاہم، پاکستان کے وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ فی الحال اس معاہدے کی معطلی کا فوری طور پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑے گا۔
فائر بندی کے باوجود، بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے کہا ہے کہ “فوجی کارروائیاں جاری ہیں” اور “اگر پھر ایسے حملے ہوئے تو ہم جواب ضرور دیں گے”۔
انہوں نے ڈچ خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا
“اگر دہشت گرد پاکستان میں ہیں تو ہم انہیں وہیں نشانہ بنائیں گے۔”
مودی اور جے شنکر کے بیانات پر پاکستان نے تاحال کوئی سرکاری ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت 1947 کی تقسیم کے بعد سے کئی بار ایک دوسرے سے ٹکرا چکے ہیں، جن میں تین بڑی جنگیں بھی شامل ہیں — دو کشمیر کے مسئلے پر ہوئیں، جس پر دونوں ملک مکمل دعویٰ رکھتے ہیں، مگر اس پر ان کا جزوی کنٹرول ہے۔
اپریل میں ہونے والے حملے کے بعد دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف کئی اقدامات کیے، جن میں تجارت کی معطلی، زمینی سرحدوں کی بندش، اور ویزا خدمات کا خاتمہ شامل ہے۔