دنیا بھر میں اپنے ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنا ایک عام روایت ہے۔ پاکستان بھی اس روایت سے استثنا نہیں جہاں مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والوں کو سراہا جاتا ہے اور ان کے نام سے سڑکیں، عمارتیں، پل اور حتیٰ کہ شہر بھی منسوب کیے جاتے ہیں۔ یہ عزت افزائی ہیروز کی خدمات کو یادگار بناتی ہے اور قوم کے لیے ایک فخر کا باعث بنتی ہے۔
تاہم، پاکستان میں ایسے ہیروز کے مجسمے بنانے کا جو رواج اب بڑھا ہے، بعض اوقات یہ نیک نیتی کا عمل الٹا تنقید اور مزاح کا محور بن جاتا ہے۔ خاص طور پر جب ان مجسموں کی تیاری میں معیار کی کمی یا ناقص ڈیزائن نظر آتا ہے، تو یہ ناصرف معزز شخصیات کی شان میں کمی کا باعث بنتے ہیں بلکہ عوام میں مایوسی اور طنز کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔
حالیہ مثال کے طور پر، پاکستان کے شہر حیدرآباد میں نصب کیے گئے پاکستان کے مایہ ناز فاسٹ بولر وسیم اکرم کے یادگاری مجسمے کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ یہ مجسمہ اگرچہ اپریل میں نصب کیا گیا تھا، مگر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے میڈیا میں اس کی خبر کم توجہ حاصل کر سکی۔ تاہم کسی نے اس مجسمے کی تصویر شیئر کر کے طنزیہ تبصرہ کیا کہ ’ٹیمو سے آرڈ کیے ہوئے وسیم اکرم‘، جس کے بعد یہ تصویر سوشل میڈیا پر ایک مزاحیہ موضوع بن گئی۔
یہ واقعہ پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کے لیے آن لائن جگتیں لگانے اور طنزیہ تبصروں کا ایک اور موقع بن گیا۔ جہاں ایک طرف اس سے قومی ہیروز کی یادگاروں کے معیار پر سوالات اٹھائے گئے، وہیں دوسری طرف عوامی ذہن میں اس قسم کی تصویریں ایک مذاق اور توہین کا سبب بھی بن گئیں۔
یہ معاملہ نہ صرف ہیروز کی عزت کے حوالے سے حساسیت پیدا کرتا ہے بلکہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قومی شناخت اور فخر کو برقرار رکھنے کے لیے یادگاروں کی تخلیق میں معیار اور وقار کو ترجیح دینا نہایت ضروری ہے۔ یوں عوامی جذبات کی عکاسی کرنے والی یادگاریں نہ صرف یادگار ہوں بلکہ عزت افزا بھی ثابت ہوں۔
آخر کار، پاکستان جیسے ملک میں جہاں ہیروز کی خدمات کو سراہنا اور ان کی یادگاریں قائم کرنا فخر کی بات ہے، اس روایت کو بہتر معیار اور ذمہ داری کے ساتھ آگے بڑھانا اشد ضروری ہے تاکہ یہ عزت و احترام کی اصل روح کو برقرار رکھ سکے اور کسی قسم کے طنز و مزاح کا موضوع نہ بنے۔