وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں مالی خسارے کو پورا کرنے کے لیے 36 ارب روپے کے نئے ٹیکس اقدامات کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ اقدام سیلز ٹیکس میں کمی اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی مجوزہ تجاویز سے پیدا ہونے والے مالی خلا کو پُر کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ ایف بی آر کے چیئرمین راشد محمود لانگریال نے یہ اعلان قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں کیا۔
چیئرمین ایف بی آر نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ مالی سال 2025-26 میں ہونے والے محصولات میں کمی کی وجہ سے تقریباً 36 ارب روپے کا مالی فرق پیدا ہوا ہے، جس میں 8.5 ارب روپے سولر پینلز پر سیلز ٹیکس کو 18 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کرنے سے آئے ہیں جبکہ 12 ارب روپے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے سے متعلق ہیں۔
قائمہ کمیٹی نے جن تین نئے ٹیکس اقدامات کی منظوری دی ان میں شامل ہیں: پہلا، پولٹری سیکٹر میں ڈے اولڈ چِکس (ڈی او سی) پر 10 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) کا نفاذ۔ دوسرا، وہ کمپنیاں جو منافع بر قرض سے حاصل شدہ آمدن پر مبنی میوچل فنڈز سے ڈیویڈنڈ حاصل کرتی ہیں ان پر ٹیکس کی شرح 25 فیصد سے بڑھا کر 29 فیصد کر دی گئی ہے۔ تیسرا، سرکاری سی کیورٹیز پر حاصل ہونے والے منافع پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دی گئی ہے، تاہم یہ اضافہ صرف ادارہ جاتی سرمایہ کاروں پر لاگو ہو گا، انفرادی افراد پر نہیں۔
یہ تمام ٹیکس اقدامات فنانس بل 2025-26 میں ترامیم کی صورت میں شامل کیے جائیں گے۔ بجٹ میں ایف بی آر کی جانب سے مجموعی طور پر 312 ارب روپے کے نئے ٹیکس اور 389 ارب روپے کے نفاذی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ سولر پینلز پر سیلز ٹیکس میں کمی سے ہونے والے 8.5 ارب روپے کے نقصان کو نکال کر خالص آمدنی کا تخمینہ اب 339.5 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے کمیٹی کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے محصولات کی تقسیم کے لیے این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو دیے جانے والے حصے میں بھی اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ چھ نئے ٹیکس اقدامات شیئر کیے ہیں جن میں سے تین کو آئی ایم ایف کی منظوری حاصل ہو چکی ہے۔
علاوہ ازیں، قائمہ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ درآمدی اور مقامی روئی پر اب یکساں 10 فیصد ٹیکس عائد ہو گا تاکہ دونوں اقسام کو برابر سلوک حاصل ہو۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے فنانس بل 2025-26 کی منظوری دے دی ہے، جس میں سینیٹ اور اپنی سفارشات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ان نئے اقدامات سے جہاں حکومتی آمدن میں اضافہ متوقع ہے وہیں زراعت، پولٹری اور مالیاتی شعبوں پر اضافی بوجھ بھی پڑنے کا امکان ہے۔ موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے مالی نظم و ضبط اور معاشی نمو کے درمیان توازن برقرار رکھنا ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔