لاہور اور کراچی پاکستان کے میگا میٹرو پولیٹن ہیں۔ لاہور کی آبادی ڈیڑھ کروڑ ہے، کراچی میں کم از کم اڑھائی کروڑ نفوس آباد ہیں۔ چونکہ یہ شہر دو بڑے صوبوں کے صوبائی دارالحکومت اور قومی سطح کے معاشی و تعلیمی مراکز بھی ہیں اس لیے ان دو شہروں میں لاکھوں لوگ دیگر علاقوں سے روزانہ آتے ہیں۔ وہ ان کی مستقل آبادی کے علاوہ ہیں۔
ان دونوں شہروں کا تقابل پاکستان کے کسی اور شہر سے نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے ڈائنامکس اور ضروریات دیگر پاکستانی شہروں سے بالکل مختلف ہیں۔
آبادی کے اعتبار سے ملک کا تیسرا بڑا میٹروپولیٹن ایریا راولپنڈی اسلام آباد ہے جس کی آبادی تقریباً ساٹھ لاکھ ہے۔ فیصل آباد پینتیس سے چالیس لاکھ آبادی کا شہر ہے۔ پھر گوجرانوالہ، ملتان، حیدر آباد اور پشاور کے نمبر آتے ہیں جو بیس سے تیس لاکھ افراد کے گھر ہیں۔ ان شہروں میں تعلیم یا روزگار کے لیے عارضی بنیادوں پر آنے والے مسافروں کی تعداد بھی لاہور اور کراچی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
لاہور اور کراچی کا شمار دنیا کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ صرف ترقی یافتہ ممالک ہی نہیں بلکہ ترقی پذیر ممالک بھی اتنے بڑے بڑے شہروں میں جامع اور افورڈ ایبل اپبلک ٹرانسپورٹ سسٹمز بناچکے ہیں جو ریپیڈ ٹرانزٹ ٹرینز کے کئی روٹس اور لینز پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان ٹرینز کے ساتھ بڑے پیمانے پر مختلف قسم کی فیڈر بسوں کا نیٹ ورک ہوتا ہے۔ یوں ان شہروں میں انفراسٹرکچر، ٹریفک، آلودگی اور ایندھن کے خرچے کی بچت کی جاتی ہے۔
ان سسٹمز پر سفر کرنا ذاتی سواری پر سفر کرنے سے زیادہ آسان اور سستا ہوتا ہے۔ لوگ اپنی گاڑی گھر پر چھوڑ کر یا سٹیشن سے ملحقہ پارکنگ سٹیشن میں کھڑی کرکے سہولت اور عزت سے ان ٹرینز پر شہر کے کسی بھی حصے میں جا سکتے ہیں۔ اکثر ان لائنز کے ساتھ سائیکل سٹینڈ، کرائے کے سائیکل کا نظام اور سائیکل کے لیے خصوصی روٹ بھی ملحق کردئیے جاتے ہیں۔
ایران کا شہر تہران اسّی نوے لاکھ آبادی کا شہر ہے لیکن وہاں 1999 سے میٹرو ٹرین چل رہی ہے جس کی اب سات لائنز ہیں جن پر سینکڑوں ٹرینیں چلتی ہیں۔ یہ میٹرو سسٹم قریب تین سو کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، درجنوں سٹیشن ہیں۔ یہ ٹرینز مسافر کو شہر کے ہر حصے میں لے جاتی ہیں۔
قاہرہ شہر لاہور سے بڑا مگر کراچی سے چھوٹا ہے۔ وہاں میٹرو ٹرین کی تین لائنز ہیں جو سو سے زیادہ کلومیٹر پر محیط ہیں۔
دلیّ میٹرو کی دس لائنز ہیں، سوا تین سو کلومیٹر طوالت ہے اور ساڑھے تین سو ٹرینیں چلتی ہیں۔ لاہور سے کم آبادی رکھنے والے حیدر آباد دکن میں تین اور احمد آباد میں دو لائنز والے میٹرو ٹرین سسٹم ہیں۔
ان ملکوں نے یہ سسٹمز بنانے اسّی اور نوے کی دہائی میں شروع کردیے تھے۔ اکیسویں صدی میں ان کو بہت ایکسپینڈ کرلیا۔ ان مہنگے منصوبوں کو بنانے کے لیے عوام کے ٹیکس کا پیسہ استعمال کرنے کی بجائے نجی سرمایہ کاری لے کر آئے۔
دوسری طرف پاکستان میں ایک ہی میٹرو ٹرین لائن ہے جو لاہور میں اورنج ٹرین کے نام سے دو ہزار تیرہ میں جا کر بننی شروع ہوئی۔ اسے بھی نجی سرمایہ کاری کی بجائے سود پر قرض لے کر بنایا گیا۔ وہ سود بھی اب عوام کو ہی ٹیکس، مہنگائی اور رفاہ عامہ کے دیگر شعبوں میں بجٹ کی کمی کی صورت برداشت کرنا پڑرہا ہے۔
احسان اس اورنج ٹرین کا ایسے جتایا جاتا ہے جیسے کوئی بہت بڑا کارنامہ کردیا ہو حالانکہ اگر پاکستان میں زرا بھی معقول حکومتیں رہی ہوتیں جیسی زیادہ دور نہیں، ایران، انڈیا یا انڈونیشیا جیسے ملکوں میں ہی رہی ہیں تو پاکستان میں بھی یہ منصوبے نوے کی دہائی میں نجی سرمایہ کاری سے بننے شروع ہوجانے چاہے تھے اور اس وقت تک لاہور اور کراچی دونوں شہروں میں ان کی آٹھ آٹھ لائنز ہونی چاہے تھیں جن کے ساتھ ماحول دوست فیڈر بسوں اور سائیکل لینز کا مربوط اور جامع نظام ملحق ہوتا۔
لاہور اور کراچی کا جو شرمناک اور خوفناک حال ہے، وہ دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام نہ ہونے کے سبب ہے۔ پوری قوم کو خطرناک موٹر سائیکلوں اور سودی گاڑیوں پر لگا کر پیسہ تو خوب کما لیا گیا لیکن معیشت، معاشرت، ماحولیات، شہروں کی خوبصورتی سب تباہ کرلی گئی۔
لاہور میٹرو سسٹم چودھری پرویز الٰہی کی پہلی وزارتِ اعلیٰ (07-2002) میں تفصیلی تحقیق و منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا ایک منصوبہ تھا۔ اس منصوبے کے تحت لاہور میں چار راستے طے کیے گئے جن پر عالمی معیار کی ریپیڈ ٹرانزٹ میٹرو ٹرینیں چلنی تھیں۔
ان چار لائنز کے نیٹ ورک کی بدولت انٹر لائن ٹرینیں بھی چل سکتی تھیں، مثلاً شاہدرہ سے صرف گجومتہ ہی نہیں بلکہ علی ٹاؤن، ائیر پورٹ، باگڑیاں اور ڈیرہ گجراں جانے والی ٹرینز بھی چلتیں، وغیرہ۔
اس سارے منصوبے کو سرکاری خزانے سے نہیں بلکہ ملکی و بیرونی نجی سرمایہ کاری سے بنایا جانا تھا۔ سرمایہ کاروں نے تعمیراتی لاگت پر مخصوص منافع وصول کرنے کے بعد اس کا مکمل مالیاتی کنٹرول بھی بلدیہِ لاہور کے حوالے کرنا تھا۔
اس سرمایہ کاری کے سلسلے میں بین الاقوامی بینکوں، ترقیاتی فنڈز اور جاپانی تعمیراتی کمپنی سے معاہدے بھی کرلیے گئے تھے اور منصوبے کا باقاعدہ سنگ بنیاد بھی 2007 میں رکھ دیا گیا تھا۔ چار لائنز پر مشتمل اس منصوبے نے 2020 تک مکمل ہوجانا تھا۔
شہباز شریف نے 2008 میں وزیراعلیٰ بن کر جو اولین کام کیے ان میں ایک اس منصوبے کو بند کرنا اور اس سلسلے میں کیے گئے تمام معاہدوں اور سمجھوتوں کو ختم کرنا تھا۔ لاہور میٹرو منصوبے کے سرمایہ کار اس وقت ہی سرمایہ کاری لے کر دہلی چلے گئے جہاں اب دس لائنز پر مشتمل میٹرو ٹرین سسٹم ہے۔
چار برس بعد جب الیکشن قریب آگئے تو اس منصوبے کے ایک مرکزی اور مصروف حصے یعنی گرین لائن پر ٹرین کی بجائے میٹرو بس چلائی گئی جو اس روٹ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پہلے دن سے یکسر قاصر ہے۔ اس بس میں سفر کرنا ہر موسم میں اذیت ناک اور گرمیوں میں ناقابلِ برداشت تجربہ ہے۔
پھر دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کے لیے اورنج لائن پر ٹرین بنانے کا آغاز کیا گیا۔ پرپل لائن اور بلیو لائن آج تک تعمیر نہیں ہوئیں۔
ایک لائن پر بس اور دوسری پر ٹرین چلانے کے سبب ورک نہیں بن سکا۔ گویا اب شاہدرہ سے علی ٹاؤن یا گجومتہ سے ڈیرہ گجراں تک ٹرین نہیں چل سکتی۔ دونوں سروسز صرف ایک ایک روٹ پر ہی چل سکتی ہیں۔
آج بھی ایم اے او کالج کے پاس میٹرو بس کا ایک گول چکر نما انٹرجنکشن دیکھ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ملتان روڈ پر بھی اورنج لائن کی جگہ میٹرو بس بنانے کا منصوبہ تھا لیکن سیاسی طور پر کامیاب میٹرو بس کی فنکشنل حوالے سے ناکامی کے بعد بدل دیا گیا اور اصل منصوبے یعنی ٹرین کی طرف رجوع کیا گیا۔
یوں سیاسی تشہیر تو بہت کی گئی لیکن شہر کو فضائی آلودگی اور ٹریفک کے عذاب میں دھکیل دیا گیا۔ ٹریفک کے اس مسئلے سے نمٹنے کے نام پر مزید انڈرپاس اور فلائی اوور بنا کر مزید منافع کمایا گیا اور شہر کو ہر اعتبار سے برباد کیا گیا۔ درخت کاٹے گئے، سگنل فری سڑکوں کا جال بچھا بچھا کر گاڑیوں کی طلب بڑھا دی گئی، ان گاڑیوں اور ان کے ایندھن کی امپورٹ سے تجارتی خسارہ بڑھا۔
لاہور میٹرو کی طرز کا منصوبہ کراچی کے لیے بھی بنایا تھا ۔ اس میں سات مختلف رنگوں کے منصوبے تھے۔ اس میں بھی ایک یا دو روٹس پر ٹرین کی بجائے بس چلا دی گئی ہے اور کراچی سرکلر ریلوے بھی آج تک بحال نہیں ہوسکی حالانکہ اس کا بنا بنایا روٹ موجود ہے۔
بے شرمی کی انتہاء یہ ہے کہ ڈیڑھ کروڑ آبادی کے لاہور کا تقابل پچیس تیس لاکھ آبادی کے پشاور سے کرتے ہیں جس کے ٹرانس پشاور ریپیڈ بس منصوبہ پر لاہور کی 66 میٹرو بسوں کے مقابلے میں 244 بسیں چل رہی ہیں اور جس کے ساتھ لاہور میٹرو بس کے صفر پارکنگ سٹینڈز کے مقابل چار پارکنگ سٹینڈز ہیں۔
پختونخوا کا دوسرا بڑا شہر مردان ہے جس کی آبادی چار لاکھ ہے، یعنی پنجاب کے گجرات اور سرگودھا سے بھی کم لیکن انتہائی ڈھٹائی سے پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ کے پی میں صرف ایک ریپیڈ ٹرانزٹ سسٹم (پشاور) ہے جبکہ پنجاب میں تین (لاہور، ملتان اور راولپنڈی) سسٹمز ہیں۔ حالانکہ پنجاب کا دوسرا بڑا شہر فیصل آباد چالیس لاکھ اور گوجرانوالہ پچیس لاکھ سے زائد آبادی کے ساتھ ریپیڈ ٹرانزٹ تو دور، سادہ بس ٹرانزٹ سے بھی محروم ہے۔ رہی ملتان میٹرو بس تو سیاسی بنیادوں پر بنائے جانے والے اس سفید ہاتھی پر سفر کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے اور وہ مسلسل بڑے خسارے میں چل رہی ہے۔
الغرض جتنا آپ دنیا کے مختلف ملکوں کے بارے میں، ڈویلپمنٹ ماڈلز اور فنڈنگ کے بارے میں، ماحولیات، اربن پلاننگ، ڈیموگرافکس اور معیشت کے بارے میں پڑھتے جاتے ہیں، اسی قدر ن لیگ اور پی پی پی سے آپ کی نفرت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ان دو جماعتوں سے نفرت نہ ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ان معاملات میں جو بہت میٹر کرتے ہیں، آپ کا مطالعہ اور علم ہی نہیں ہے یا آپ خود اتنے کرپٹ ہیں کہ جان بوجھ کر ان دونوں بیماریوں کو سپورٹ کرتے ہیں۔