Premium Content

Add

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ”ووٹ کو عزت دو“ اور بہتر گورننس کی سیاست اور مصنوعی بیانیہ

Print Friendly, PDF & Email

نوے کی دہائی کے بعد سے پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ہمیشہ یہ بیانیہ قائم کیا ہے کہ اُن کی گورننس پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسری سیاسی جماعتوں سے سے بہتر ہے، اس لیے وہ ووٹ کے زیادہ حقدار ہیں۔ کیونکہ گورننس کے تمام عوامل بشمول انتظامی شفافیت، اقتصادی نشوونما اور بہتر سروس ڈیلیوری میں ن لیگ پیپلز پارٹی سے بہتر ہے، اس لیے ووٹ پر زیادہ حق انکا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی ن لیگ کے اس بیانیہ کا کبھی بھی مؤثر طریقے سے جواب نہ دے سکی اور یوں عوام الناس کی ایک بڑی تعداد میں اس بیانیہ کی پذیرائی ہوئی۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے سیاست میں مضبوط ہونے کے بعد سے ہی ن لیگ کے اس بیانیے کو پہلا چیلنج درپیش آیا۔ مکافاتِ عمل یہ ہے کہ اب پاکستان میں عوام کی اکثریت عمران خان اور تحریک انصاف کو اگر آئیڈیل نہیں تو مسلم لیگ (ن) سے اسی کے بنائے ہوئے بیانیہ پر ن لیگ سے  کافی بہتر سمجھتی ہے۔

الیکشن 2018ء میں ن لیگ نے ”ووٹ کو عزت دو“ کا بیانیہ ترتیب دیا۔ یہ بیانیہ عوام میں جمہوریت اور عوام کی حق حاکمیت کی بنیاد پر مقبول ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پنجاب میں ہونے والے اکثر ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اکثر فتح یاب ہوتی رہی۔ یہ الگ بحث ہے کہ عثمان بزدار کی گورننس نے بھی مسلم لیگ (ن) کو مقبول کیے رکھا۔ مارچ 2022ء میں اقتدار میں آنے کے لیے جیسے ہی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے نظریاتی بیانیہ ووٹ کو عزت دو پر سمجھوتہ کیاتوجمہور پسند عوام میں مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کم ہونا شروع ہوئی۔ پاکستانی سیاست میں سب سے مضحکہ خیز نعرہ بھی ن لیگ کے ورکرز نے لگایا۔ نعرہ کچھ یوں تھا ”کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے“۔ اس نعرے کی فلاسفی یہ ہے کہ ن لیگ گورننس اور سروس ڈیلیوری میں قدرے مہارت رکھتی ہے۔

اب اگر ن لیگ کے نظریاتی بیانیہ اور گورننس کا تجزیہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ گزشتہ ایک سال میں نہ صرف ن لیگ کی نظریاتی اساس ختم ہوئی ہے بلکہ اس کے گورننس کا بیانیہ بھی زمین بوس ہوا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے یہ بیانیے مصنوعی عمارت پر کھڑے تھے۔ شہباز شریف جوکہ بہتر ایڈمنسٹریٹر کے طور پر جانے جاتے تھے، بطور وزیراعظم بُری طرح ناکام ہوئے۔ مسلم لیگ(ن) اور پی ڈی ایم کی حکومت کا ایک سال پاکستان کی تاریخ کا سیاسی،اقتصادی، جمہوری و اخلاقی لحاظ سے بدترین سال ہے۔ ن لیگ کی مقبولیت جوکہ مرکزی پنجاب تک محدود ہوگئی تھی۔ وہ اب مرکزی پنجاب میں بھی انتہائی کم ہوتی جارہی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ(ن) بطور سیاسی جماعت وجودی بحران کا شکار ہے۔ مریم نوازبطور مرکزی قائد عوام الناس کو متاثر کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ناقدین کے نزدیک مریم نواز صاحبہ کاسیاسی کردارمتاثر کن نہیں رہا ہے۔ شہباز شریف کبھی بھی سیاسی طور پر مقبول نہیں رہے ہیں۔ وہ بطور وزیراعظم کمزور کارکردگی کی وجہ سے عوام الناس میں مقبولیت کھوچکے ہیں۔ ن لیگ کے پاس نوازشریف کے علاوہ کوئی دوسرا لیڈر موجود نہیں ہے جوکہ پارٹی کو دوبارہ سے مقبول کرسکے۔ لیکن ایسا ہونے میں نواز شریف صاحب کو پاکستان آنا ہو گا۔

 تاہم حقیقت بدلتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف سیاسی مقبولیت کی معراج پر ہیں۔ نواز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن اور دوسرے سیاسی قائدین اس پوزیشن میں دکھائی نہیں دے رہے ہیں کہ وہ عمران خان کا مقابلہ کرسکیں۔اس لیے تمام سیاسی پارٹیاں اس در پر ہیں کہ عمران خان کو کسی طرح ٹیکنیکل ناک آؤٹ کیاجا سکے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کو مہنگائی ، گورننس، بدترین جمہوری حقوق کی پامالی کا سامنا ہے۔ گزشتہ ایک سال میں ن لیگ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ وہ ایک آمریت پسندانہ سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے اور جمہوری حلقوں میں پسندیدیت کھو چکی ہے۔

آخر میں پاکستان مسلم لیگ ن اور انکے قائدین کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ کیسے عوام الناس کو یہ باور کرواتے ہیں کہ وہ جمہوریت پسند ، آئین پسند اور قانون پسند سیاسی جماعت ہے۔ گورننس کے مسائل تو سیاسی جماعتیں حل کر لیتی ہیں مگر نظریاتی تشخص کے مسائل حل ہوتے دیر لگتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کیسے اپنا سیاسی و جمہوری تشخص بحال کروائے گی ، اسکا فیصلہ تو مستقبل میں ہو گا۔ تاہم موجودہ تناظر میں ن لیگ کو عمران خان اور تحریک انصاف کی وجہ سےوجودی بحران کا چیلنج درپیش ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

AD-1