سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں جسٹس شاہد وحید نے اختلافی نوٹ جاری کر دیا۔
جسٹس شاہد وحید نے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ عدلیہ اور انتظامی امور کو آئین نے الگ الگ طے کر رکھا ہے، عدالتی دائرہ اختیار میں اضافہ آئینی ترمیم سے ہی ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ سادہ قانون سازی سے عدالت کو کوئی نیا دائرہ اختیار تفویض نہیں کیا جاسکتا، ججز کمیٹی اپنے رولز پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مطابق ہی بنا سکے گی، ججز کمیٹی کا کوئی رکن دستیاب نہ ہو تو اس کی جگہ کون لے گا؟ قانون خاموش ہے۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے مطابق دوسرا جج کمیٹی ممبر کی جگہ نہیں لے سکتا، ایک رکن بیمار، دوسرا بیرون ملک ہو تو ایمرجنسی میں بینچ کی تشکیل کیسے ہو گی؟
جسٹس شاہد وحید کا کہنا ہے کہ قانون میں ان سوالات کے جواب نہیں، نہ ہی ججز کمیٹی ان کا کوئی حل نکال سکتی ہے، آرٹیکل 184/3 کی درخواستیں قابل سماعت ہونے کا فیصلہ عدالت میں ہی ممکن ہے، ججز کمیٹی انتظامی طور پر درخواست کے قابل سماعت ہونے نہ ہونے کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔ اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن تین اور چار آپس میں متضاد ہیں، سیکشن تین کے مطابق 184/3 کی بنیادی حقوق کا کیس تین رکنی بینچ سن سکتا ہے، سیکشن 4 کے مطابق بنیادی حقوق کے معاملے کی تشریح 5 رکنی بینچ ہی کر سکتا ہے، سیکشن تین سماعت اور آئینی تشریح کی اجازت دیتا ہے جبکہ سیکشن 4 پابندی لگاتا ہے۔
جسٹس شاہد وحید کا کہنا ہے کہ قانون کی حکمرانی کے لیے نظام انصاف ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا مقصد عدلیہ کی آزادی اور اس کے امور پر قدغن لگانا ہے۔
سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا تفصیلی فیصلہ گزشتہ سال دسمبر میں جاری کیا تھا، جسٹس شاہد وحید کا اختلافی نوٹ 5 ماہ بعد سامنے آیا ہے۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.