مارچ 2022 میں پاکستان کی 13 سیاسی جماعتوں پر مشتمل پی ڈیم ایم وفاق اور پنجاب میں عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد سامنے لے کر آئیں۔ جو مختلف بیانیے، نشیب وفراز کے باوجود کامیاب ہو گئی۔ عمران خان نے بیانیے اپنایا کہ میری حکومت جمہوریت نہیں بلکہ امریکہ کے ایماء پر گرائی جا رہی ہے۔ سائفر سامنے لایا گیا جس کی بنا پر ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے اسمبلی تحلیل کر دی ۔ قاسم سوری کی رولنگ کے خلاف پی ڈی ایم عدالت عظمی میں گئی۔ عدالت عظمی نے قاسم خان سوری کی رولنگ کو کالعدم اور خلاف آئین قرار دیا۔ اس طرح سے عدالت کے فیصلے کی رو اور سیاسی جماعتوں کی مشترکہ کاوشوں سے تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی اور پی ٹی آئی کی گورنمنٹ کا وفاق سے خاتمہ ہو گیا۔
مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/koi-kisi-ebham-ka-shikar-na-ho-wazire-alaa-punjab/
پنجاب میں پی ٹی آئی کے منتخب وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد آئی اور تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے عثمان بزدار کی سیٹ کا کفارہ دینا پڑا۔ عثمان بزدار کی جگہ حکومتی اتحادی جماعت ق لیگ کے راہنما چوہدری پرویز الہیٰ کو وزیر اعلیٰ نامزد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ووٹنگ کے نتیجے میں جو 22 جولائی 2022 کو ہوئی حمزہ شہباز نے 179 اور چوہدری پرویز الہیٰ نے 186 ووٹ حاصل کیے لیکن پی ٹی آئی کے ڈپٹی اسپیکر نے مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت کے خط کو جواز بنا کر ق لیگ کے 10 ارکان کے ووٹ جو چوہدری پرویز الہیٰ کے حق میں ڈالے گئے تھے کو مسترد کردیا اور یوں حمزہ شہباز پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اس طرح سے وفاق کے بعد پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہو گئی۔
ڈپٹی اسپیکر دوست مزار ی کے فیصلے کو چوہدری پرویز الہیٰ نے عدالت میں چیلنج کر دیا۔ یہ قانونی اور آئینی جنگ چوہدری پرویز الہیٰ نے جیت لی اور اُنہوں نے 26 جولائی 2022 کو ایوان صدرا سلام آباد میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے کا حلف اُٹھا لیا۔ تقریباً پانچ ماہ کے عرصے کے بعد گورنر پنجاب بلیغ الرحمن نے اُن کو اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم دیا لیکن اُنہوں نے گورنر کے حکم پر اعتماد کا ووٹ نہ لیا ۔ اعتماد کا ووٹ نہ لینے کے بعد گورنر پنجاب بلیغ الرحمن نے اُن کو ڈی نوٹیفائی کر کے اُن کی کابینہ کی تحلیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ اس ساری صورت حال کے بعد اُنہوں نے ایک دفعہ پھر عدالت سے رجوع کیا اور عدالت عالیہ نے بیان حلفی پر گورنر کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا اور چوہدری پرویز الہیٰ کی حکومت کو بحال کر دیا۔
مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/adalat-ny-kaha-tu-aitemad-ka-vote-lain-gy/
اعتماد کا ووٹ لینے کے حوالے سے پی ٹی آئی اور ق لیگ میں کافی ابہام پایا جارہا ہے۔ عمران خان نے اپنے پہلے بیانات میں کہا تھا کہ 11 جنوری سے قبل اعتماد کا ووٹ لیا جائے گا۔ عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ 9 جنوری کے اجلاس میں اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا جائے گا تاہم اب اُنہوں نے پارٹی کے اراکین اور اتحادیوں سے مشاورت کے بعد اعتماد کے ووٹ کو عدالت کے فیصلے سے مشروط کر دیا ہے۔ اعتماد کے ووٹ کے حوالے سے اجلاس جو لاہور میں زمان پارک میں منعقد ہو ا میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اگر عدالت ووٹ کا کہتی ہے تو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد فوری طور پر اسمبلی تحلیل کر لی جائے گی اور الیکشن کی طرف جایا جائے گا۔ اس حوالے سے اُنہوں نے پارٹی اراکین کو ہدایات بھی جاری کی ہیں کہ وہ الیکشن کی تیاریاں شروع کر دیں۔
اعتماد کے ووٹ کے حوالے سے کافی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں ۔ چوہدری پرویز الٰہی بھی اعتماد کا ووٹ لینے کے حق میں نظر نہیں آرہے۔ لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ گورنر کا اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم غیر قانونی ہے ، وہ اسے نہیں مانتے اور نہ انھیں ایسا کرنے کی ضرورت ہے ۔ پنجاب کی حالیہ سیاست کوئی نئی بات نہیں ،اس نے گذشتہ چالیس برس کے عرصے میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے لیکن جس صورتحال کا موجودہ دنوں میں سامنا کرنا پڑرہا ہے اس کی نظیر ماضی میں کہیں دیکھنے کو نہیں ملتی۔
مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/pti-ka-9-january-ko-wazir-alaa-punjab-sy-aitemad/
پنجاب ملکی سیاست کا اصل میدان جنگ بن چکا ہے ، جہاں اسمبلی تحلیل کرنے یا اسے بچانے کی جنگ لڑی جارہی ہے ، ایک طرف پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت پنجاب اسمبلی کو برقرار رکھنا چاہتی ہے تو دوسری طرف پی ٹی آئی اسے تحلیل کرنے کا اعلان کرچکی ہے ۔ پاکستان کا آئین ایک ہی ہے کوئی جماعت اسے اپنی تعبیر نہیں دے سکتی ۔ موجودہ صورتحال جو تیزی سے امن عامہ ، معاشی مسائل اور عوامی بے چینی میں اضافے کی طرف بڑھ رہی ہے ، فریقین کا مذاکرات کی میز پر آنا ہی اس کا دیر پا حل ہے جہاں باہمی گفت و شنید کے ساتھ تمام معاملات طے پائے جانے چاہئیں۔ بصوت دیگر اقتدار کی اس جنگ میں جب سیاستدان خود اپنے مسائل حل نہیں کر پائیں گے تو با لآخر ذمہ داری عدلیہ ہی کے کندھوں پر ہی پڑتی ہے۔ جس کا ممکنہ فیصلہ ہی پنجاب کے مستقبل کا تعین کرسکے گا۔