امریکی سیاسی و کارپوریٹ منظرنامے پر ایک غیر معمولی کشیدگی نے جنم لیا ہے، جہاں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے صدر اور دنیا کے سب سے امیر شخص کے درمیان کھلا تصادم شدت اختیار کر چکا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ٹیکنالوجی کمپنی ٹیسلا و اسپیس ایکس کے بانی ایلون مسک کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات صرف نظریاتی یا پالیسی نوعیت کے نہیں رہے، بلکہ اب یہ تنازع عملی دھمکیوں اور معیشت پر براہ راست اثر انداز ہونے والے اقدامات میں ڈھل چکا ہے۔ اس کشمکش کے ممکنہ مضمرات صرف امریکہ تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر ٹیکنالوجی، سرمایہ کاری اور سفارتی تعلقات پر بھی اثر ڈال سکتے ہیں۔
تنازع کی بنیاد صدر ٹرمپ کی وہ بیان بازی ہے جس میں انہوں نے ایلون مسک کو وفاقی سطح پر ملنے والی مالی معاونت اور حکومتی معاہدوں پر نظرِ ثانی کی دھمکی دی ہے۔ صدر نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ پر سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ “اربوں ڈالر کی بچت کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ ایلون مسک کو حاصل سرکاری سبسڈی اور ٹھیکے ختم کر دیے جائیں۔” یہ بات نہ صرف سیاسی انتقام کا عندیہ دیتی ہے بلکہ امریکی ریاستی وسائل کے ذاتی جھگڑوں میں استعمال پر ایک سنگین سوالیہ نشان بھی اٹھاتی ہے۔
ٹرمپ کا یہ بیان، جسے کئی مبصرین ایک قسم کی “پالیسی بلیک میلنگ” قرار دے رہے ہیں، دراصل ایلون مسک کے اس بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف ردعمل ہے جو وہ محض کاروباری میدان میں ہی نہیں بلکہ سماجی و سیاسی سطح پر بھی رکھتے ہیں۔ مسک کے ادارے اسپیس ایکس، جو ناسا اور امریکی فوج کے ساتھ کلیدی نوعیت کے معاہدے رکھتا ہے، ان کے خلاف ممکنہ حکومتی کارروائی ایک طرح سے قومی خلائی پالیسی کو بھی داؤ پر لگا سکتی ہے۔
اس کشیدگی کے معاشی اثرات فوری طور پر مارکیٹ میں دیکھے گئے۔ ایلون مسک کی کمپنی ٹیسلا کے شیئرز کی قیمت میں ایک ہی دن میں 14 فیصد کمی واقع ہوئی، جو صرف سرمایہ کاروں کے لیے ہی نہیں بلکہ امریکی اسٹاک مارکیٹ کے استحکام کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ یہ گراوٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ سرمایہ کار ٹرمپ کے بیانیے اور ارادوں کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور ان کا اعتماد متزلزل ہو چکا ہے۔
یہ صورتحال امریکہ میں ریاست اور کاروبار کے باہمی تعلق پر ایک اہم مکالمہ کھولتی ہے۔ اگر صدرِ مملکت بزنس لیڈرز کو اپنی سیاسی ترجیحات کے تابع بنانے کے لیے ریاستی طاقت کا استعمال شروع کر دیں، تو یہ نہ صرف جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ آزاد منڈی کی ساکھ کو بھی شدید دھچکہ پہنچاتا ہے۔ اس سے یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ امریکہ میں پبلک پالیسی ذاتیات، انتقام اور سیاسی دشمنیوں کا شکار ہو سکتی ہے۔
دوسری طرف، ایلون مسک کے رویے اور بیانات بھی اس تنقید سے مبرا نہیں۔ ان پر یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ ریاستی وسائل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو عالمی ٹیکنالوجی کے سلطان کے طور پر پیش کرتے ہیں، اور کئی مواقع پر انہوں نے حکومتی اصولوں اور ضابطوں کو کھلم کھلا چیلنج بھی کیا ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا مسک اپنی کارپوریٹ طاقت کے ذریعے ریاستی پالیسیوں کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یا واقعی وہ ایک آزاد سرمایہ کار کی حیثیت سے نکتہ نظر پیش کر رہے ہیں؟
موجودہ صورت حال میں ٹرمپ اور مسک کے درمیان تنازع صرف دو شخصیات کا ذاتی جھگڑا نہیں رہا، بلکہ یہ امریکہ میں سیاست، معیشت اور طاقت کی نئی سرحدوں کی وضاحت کر رہا ہے۔ کیا ریاستی طاقت کو بزنس پر بالادستی حاصل ہے یا کارپوریٹ اثرورسوخ اتنا بڑھ چکا ہے کہ وہ حکومتی پالیسیوں کو چیلنج کر سکے؟ یہ سوالات صرف امریکی عوام ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے باعث تشویش بن چکے ہیں۔
اگر یہ کشمکش مزید بڑھی، تو اس کے اثرات امریکی اقتصادی نظام، دفاعی منصوبوں، خلائی پروگراموں، اور عالمی سرمایہ کاری پر گہرے اور طویل المدتی ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ امریکی ادارے اور عوام، شخصیات کی بجائے اصولوں پر مبنی پالیسیوں کو ترجیح دیں تاکہ ملک کی جمہوریت اور معیشت کسی بھی انفرادی تنازعے کی نذر نہ ہو۔