ٹرمپ اور منیر کی تاریخی ملاقات: پاک-امریکہ تعلقات میں نئی پیش رفت کا اشارہ

[post-views]
[post-views]

واشنگٹن ڈی سی: پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک غیرمعمولی اور تفصیلی ملاقات کی، جو دونوں ممالک کے درمیان طویل کشیدگی کے بعد تعلقات کی بحالی کی جانب ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق یہ ملاقات، جو ایک گھنٹے کے لیے طے تھی، دو گھنٹے سے زائد جاری رہی۔ یہ ملاقات کابینہ روم میں دوپہر کے کھانے کے دوران شروع ہوئی اور بعد ازاں اوول آفس میں جاری رہی۔ منیر کے ہمراہ پاکستان کے قومی سلامتی مشیر اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک بھی موجود تھے۔ ملاقات میں اقتصادی تعاون، معدنیات، جدید ٹیکنالوجی، کرپٹو کرنسی، توانائی اور علاقائی سلامتی جیسے موضوعات زیر بحث آئے۔

وائٹ ہاؤس نے اس ملاقات پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا، اور نہ ہی میڈیا کو رسائی دی گئی، تاہم صدر ٹرمپ نے مختصر گفتگو میں منیر کی تعریف کی اور انہیں “قابل احترام مہمان” قرار دیا۔ آرمی چیف نے بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد جنگ بندی میں ٹرمپ کے کردار پر شکریہ ادا کیا۔

باوجود خوشگوار ماحول اور مثبت اشاروں کے، اس ملاقات میں علاقائی تناؤ، خاص طور پر ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگی صورتحال پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی۔ ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان “ایران کو بہتر سمجھتا ہے، شاید دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ”، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ ایران سے متعلق پاکستان کی سفارتی حیثیت کو اہم سمجھتا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ملاقات محض رسمی نہیں بلکہ مستقبل کی حکمت عملی کی بنیاد بن سکتی ہے۔ اسٹی من سنٹر کی ایلزبتھ کا کہنا ہے کہ “یہ ملاقات پاک-امریکہ تعلقات میں ایک مثبت موڑ ہے، اور صدر ٹرمپ کی ذاتی ڈپلومیسی کے تحت منیر نے براہِ راست روابط قائم کیے ہیں”۔

بعد ازاں پاکستانی سفارتخانے میں منعقد عشائیے میں منیر نے ملاقات کو “بہت عمدہ” قرار دیا اور کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ تعلقات “تاریخی طور پر بدترین” رہے ہیں۔ منیر نے زور دیا کہ پاکستان ہر تنازعے کا حل مذاکرات اور سفارتکاری میں دیکھتا ہے، اور مشرقِ وسطیٰ میں پرامن حل کی حمایت کرتا ہے۔

چین کے ساتھ پاکستان کے تزویراتی تعلقات بھی اس ملاقات کے تناظر میں اہم ہیں۔ پاکستان چین سے نہ صرف عسکری سازوسامان حاصل کرتا ہے بلکہ سی پیک منصوبے کے تحت چین پاکستان میں 60 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ تاہم چین کی عالمی ابھار اور امریکہ سے مسابقت نے اسلام آباد کو ایک نازک توازن پر لا کھڑا کیا ہے۔

سڈنی میں مقیم سی کیورٹی ماہر محمد فیصل کے مطابق “پاکستان کی ‘نو کیمپ پالیسی’ کے تحت دونوں قوتوں کے ساتھ تعلقات کو متوازن رکھنا ایک مشکل مگر ضروری حکمت عملی ہے۔”

ایران کے معاملے میں بھی پاکستان کو ایک نازک صورتحال کا سامنا ہے۔ پچھلے ماہ منیر نے ایرانی آرمی چیف جنرل محمد باقری سے تہران میں ملاقات کی تھی، جو 13 جون کو اسرائیلی حملے میں مارے گئے۔ پاکستان نے ان حملوں کو ایرانی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور ایران کے دفاع کے حق کی حمایت کی ہے۔

پاکستان کی آبادی میں شیعہ مسلک کے افراد کا تناسب 15 سے 20 فیصد کے درمیان ہے، جس کے باعث امریکہ کی ممکنہ ایران مخالف عسکری مہم کی حمایت اسلام آباد کے لیے داخلی طور پر خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ واشنگٹن کی تجزیہ کار سحر خان کا کہنا ہے کہ “پاکستان امریکہ سے یہی پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ اسے صرف چین، بھارت یا افغانستان کے تناظر میں نہ دیکھے، بلکہ ایک خودمختار اور پیچیدہ ریاست کے طور پر سمجھے۔”

یہ ملاقات مستقبل میں پاک-امریکہ تعلقات کے نئے دور کی شروعات بن سکتی ہے، بشرطیکہ دونوں ممالک سنجیدگی، سمجھداری اور باہمی مفادات کو ترجیح دیں۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں عالمی اتحاد تبدیل ہو رہے ہیں، پاکستان کی پوزیشن اور سفارتی توازن اس کے عالمی کردار کا تعین کرے گا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos